Aaj News

ہفتہ, دسمبر 28, 2024  
26 Jumada Al-Akhirah 1446  

بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کردی

اپ ڈیٹ 09 نومبر 2019 01:15pm

بھارتی سپریم کورٹ  نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف سُنا دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوؤں کوایودھیا کی متنازع زمین دی جائے گی جبکہ مسلمانوں کو متبادل جگہ دی جائے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کر دی۔

بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رانجن گنگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنایا، پانچ رکنی بنچ میں مسلمان جج ایس عبدالنذیر بھی شامل ہیں۔

چیف جسٹس رانجن گنگوئی کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کیس کا فیصلہ متفقہ ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہندو ایودھیا کو رام کی جنم بھومی جب کہ مسلمان اس جگہ کو بابری مسجد کہتے ہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلے میں کہنا ہے کہ عدالت کے لیے مناسب نہیں کہ وہ مذہب پر بات کرے، عبادت گاہوں کے مقام سے متعلق ایکٹ تمام مذہبی کمیونٹیز کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ مسجد کی جگہ پر  رام کی جنم بھومی تھی اور بابری مسجد کے نیچے اسلامی تعمیرات نہیں تھیں، بابری مسجد کو خالی پلاٹ پر تعمیر نہیں ہندو اسٹرکچر پر تعمیر کی گئی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق اتر پردیش میں تمام اسکول، کالج اور تعلیمی ادارے 11 نومبر تک بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور ایودھیا سمیت پورے بھارت میں سیکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق مطابق ریونیو ریکارڈ کے مطابق زمین سرکاری تھی جب کہ بابری مسجد کی شہادت قانون کی خلاف ورزی ہے۔

چیف جسٹس رانجن گنگوئی نے بابری مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو ایودھیا میں متبادل جگہ دی جائے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے ستمبر 2010 کے فیصلے کے خلاف دائر 14 اپیلوں پر سماعت کی جس میں سنّی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام لالہ کے درمیان ایودھیا میں 2.77 ایکڑ متنازع زمین کو برابر تقسیم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

عدالت کے اطراف سیکیورٹی انتہائی سخت ہے۔ ایودھیا سمیت کئی شہروں میں سیکیورٹی سخت ہے۔

بھارتی چیف جسٹس نے سیکیورٹی صورتحال پر اتر پردیشن کے اعلیٰ حکام سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سیکیورٹی صورتحال بگڑنے کے پیش نظر ایودھیامیں پہلے ہی سیکڑوں افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔ حکام کو خدشہ ہے کہ فیصلے سے فرقہ ورانہ فسادات پھوٹ سکتے ہیں ۔

بھارتی نشریاتی ادارے ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنگن گوگوئی کی سربراہی میں قائم 5 رکنی بینچ نے دلائل کو نمٹاتے ہوئے فریقین کو 3 دن کے اندر اپنا تحریری بیان دینے اور تحفظات سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی تھی ۔

واضح رہے کہ یہ بھارت کی تاریخ کا دوسرا طویل ترین کیس ہے جس کی 40 سماعتیں ہوئیں جس کے بعد بھارت کی عدالت عظمیٰ نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

قبل ازیں بابری مسجد سے متعلق کیس کی سماعت پر چیف جسٹس نے بھارتی سپریم کورٹ میں ہندو مہاسبھا پارٹی کی جانب سے دلائل کےلئے مزید مہلت سے متعلق دائر درخواست مسترد کر دی تھی۔

بھارتی چیف جسٹس دہائیوں سے زیرِ سماعت اس کیس کے 5 رکنی بینچ کے سربراہ تھے، جس میں اس بات کا فیصلہ ہونا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر ہونی چاہیے یا نہیں۔

اس حساس کیس کا فیصلہ 17 نومبرکوسنایا جانا تھا تاہم بھارتی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کا بہانہ بنا کر 9 نومبر کا انتخاب کیا گیا۔

پس منظر

مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر کے نام سے منسوب بابری مسجد ایودھیا میں سنہ  1528 میں ایک مقامی فوج کے کمانڈر نے بنوائی تھی۔

بہت سے ہندوؤں اور ہندو مذہبی رہنما‌‍‌‌ؤں کا دعویٰ ہے کہ کہ بابر نے یہ مسجد ایودھیا میں ان کے بھگوان رام کے پہلے سے قائم ایک مندر کو توڑ کر اس کی جگہ تعمیر کروائی تھی۔

ان کا ماننا ہے کہ بابری مسجد کے مقام پر ہی بھگوان رام کی پیدائش ہوئی تھی اور اس لیے مسجد کی زمین کی ملکیت مندر کی ہے۔

یہ تنازع انیس ویں صدی میں انگریزوں کے دورِ حکمرانی میں سامنے آیا تھا لیکن پہلی بار یہ کیس سنہ  اٹھارہ سو پچیاسی میں فیض آباد کے کمشنر کی عدالت میں پیش ہوا۔

اس وقت کمشنر نے مسجد اور اس کے احاطے پر ہندوؤں کے ملکیت کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔

آزادی کے بعد دسمبر  انیس سو انتالیس کی ایک رات بابری مسجد کے درمیانی گنبد کے نیچے مقام پر بگھوان رام کی مورتی رکھ دی گئی۔

جس کے بعد مزید کشیدگی میں اضافہ ہوگیا اوراس ماحول میں اس مسجد پر تالا لگا دیا گیا اور وہاں نماز پڑھنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ مقامی مسلمانوں نے  واقعے کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کرائی اور وہاں سے مورتی ہٹانے کا مطالبہ کیا اور اس کے بعد ہندوؤں نے بھی مسجد کی زمین پر ملکیت کا مقدمہ دائر کیا۔

سنہ  انیس سو اسی کے عشرے کے اواخر میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینیئر رہنما ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں آر ایس ایس سے وابستہ وشوا ہندو پریشد کے توسط سے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کی تحریک شروع ہوئی تھی

چھ دسمبر  انیس سو بانوے کو اسی تحریک کے تحت ایودھیا میں جمع ہونے والے ہزاروں ہندوؤں کے ایک ہجوم نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا اور اس منہدم مسجد کے منبر کے مقام پر دوبارہ مورتیاں نصب کر دیں گئیں اور وہاں ایک عارضی مندر بنا دیا گیا۔

اس وقت سپریم کورٹ نے اس متنازع مقام کے حوالے سے حکم امتناعی جاری کیا تاکہ حالات مزید کشیدہ ہونے کے بجائے جوں گے توں رہیں۔