وزیر اعظم کو گرفتار کرنے کا بیان بغاوت قرار، حکومت کا مولانا کیخلاف عدالت جانے کا اعلان
اسلام آباد: حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ مذاکرات کیلئے ہمارے دروازے کھلے ہیں، وزیراعظم کے استعفے سے متعلق کوئی سوچے بھی نہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر مظاہرین آگے بڑھیں گے تو پھر کسی سے گلہ نہ کریں، یہ دھمکی دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے اپنی زبان پر قائم نہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر معاہدہ پورا نہیں کرتے تو انتظامیہ کو ایکشن لینا ہوگا، حکومت اتنی لاچار نہیں ہوتی کہ کوئی آئے اور قبضہ کرلے۔
پرویز خٹک کا مزید کہنا تھا کہ اس افراتفری پھیلانے کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقاصد ہیں، اگر کوئی نقصان ہوا تو ذمہ داری ان پر عائد ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ کل اداروں پر تنقید کی گئی، آئی ایس پی آر نے بھی کہا کہ جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، اگر اداروں کے خلاف بولے تو پاکستان میں کون کام کرے گا، یہ ادارے سب کے ادارے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف کو اپنے گریبان میں دیکھنا چاہئیے، دیکھیں کہ نوازشریف کیسے اقتدار میں آئے، اس دفعہ یہ ادارہ نیوٹرل ہوا تو انہیں شکست ہوئی۔
پرویز خٹک نے مزید کہا کہ جو بھی حکومت ہوتی ہے ادارے اسکے پیچھے ہوتے ہیں، افراتفری پھیلتی ہے تو اداروں کو آگے آنا ہوتا ہے۔
حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ نے مزید کہا کہ سب سے بڑی بات ہے کہ ایشو کوئی نہیں، اس طرح تیس چالیس ہزار لوگ آجائیں اور وزیراعظم کا استعفیٰ مانگنا شروع کردیں۔
پرویز خٹک نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ 20 ہزار لوگ آئیں اور تختہ الٹ دیں، دھاندلی کے حوالے سے ایک کمیٹی بنی، ہم خاموش ہوئے تو کسی نے نہیں کہا کہ میٹنگ بلائیں۔
انہوں نے کہا کہ ابھی بھی آئیں میں کمیٹی کا سربراہ ہوں، میٹنگ بلاتے ہیں۔
پرویز خٹک نے کہا کہ علی امین گنڈا پور نے مولانا کو چیلنج دیا کہ آئیں میدان میں اور دوبارہ الیکشن لڑتے ہیں، ہمیں پہلے سے خدشہ تھا کہ یہ اپنی بات پر پورے نہیں اتریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان میں سے کئی سمجھدار ہیں جو ایسا فیصلہ نہیں کریں گے کہ ملک میں تباہی ہو، یہ اگر آگے بڑھیں گے تو پھر کوئی پاکستانی اس حکومت پر الزام نہیں دے گا، ہم آخری حد تک کہہ رہے ہیں کہ ہم بات چیت کیلئے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ معیشت کی بحالی نظر آنا شروع ہوگی، سخت فیصلے ہوتے ہیں لوگوں کو صبر کرنا چاہیئے، دنیا پاکستان پر اعتماد کرنے لگی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے پاس کوئی چابی نہیں کہ کشمیر کا مسئلہ فوری حل کردیں، ہم نے کونسا جرم کیا ہے کہ آپ اتنا بڑا قدم اٹھانے لگے ہیں، بات چیت کیلئے ہمارے دروازے کھلے ہیں، حکومت سارے ادارے ہیں۔
پرویز خٹک نے مزید کہا کہ ہم پر دباؤ ڈالنے کیلئے شوشا چھوڑا جارہا ہے، یہ جو کررہے ہیں اس میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ فوج حکومت کا حصہ ہوتی ہے، دونوں ملکر حکومت چلاتے ہیں۔
پرویز خٹک نے کہا کہ کیا شہباز شریف کو فوج نے اسکول، اسپتال بنانے سے روکا تھا؟ شہبازشریف بتائیں کہ فوج نے انہیں کس چیز سے روکا تھا؟
انہوں نے کہا کہ میں ان سے زیادہ لوگ صوبے سے لاسکتا ہوں، چیلنج قبول کریں، اگر پی ٹی آئی ان سے دگنے لوگ لے آئے تو کیا یہ معافی مانگ لیں گے؟
انہوں نے مزید کہا کہ مولانا نے کہا کہ عمران خان کو انکےگھر سے زبردستی نکالیں گے، یہ ایک بغاوت ہے، ہم مولانا کیخلاف عدالت جارہے ہیں۔
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ نے مزید کہا کہ اس وقت تمام ادارے ایک پیج پر ہیں، اس کا مطلب ہے کہ حکومت درست لائن پر چل رہی ہے۔
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن شفقت محمود نے کہا کہ آزادی مارچ نے کشمیر سے توجہ ہٹادی ہے، بھارتی میڈیا انکی پروجیکشن کررہا ہے، وزیراعظم کا استعفی اور دوبارہ الیکشن ناممکنات میں سے ہے۔
اس موقع پر اسد عمر نے کہا کہ اگر انہیں سڑکوں پر آنے کی اجازت دیں تو توہین عدالت ہوگی۔
Comments are closed on this story.