ٹوئٹر کا سیاسی اشتہارات کی اشاعت پر پابندی لگانے کا اعلان
ٹوئیٹر پر تمام قسم کے سیاسی اشتہارات پر پابندی عائد کردی گئی ، اس پابندی کا اطلاق بائیس نومبر سے شروع ہوگا۔ ٹوئیٹر کے سی ای او جیک ڈارسے نے اس بات کی تصدیق کی اور کہا ہے کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ سوشل پلیٹ فارم پر سیاسی پیغامات کی ریچ یا رسائی خریدی نہیں جانی چاہیئے ۔ سوشل پلیٹ فارم پر رسائی یا ریچ اس بات کا پیمانہ ہے کہ آیا کتنے تعداد میں لوگوں نے اس پیغام کو دیکھا ہے۔
ڈارسے نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ کسی بھی سیاسی پیغام کی ریچ یا رسائی اس وقت بڑھتی ہے جب کوئی شخص اسکو فالو کرنا شروع کردیتا ہے یا پھر اسکو ری ٹوئیٹ کرتا ہے تاہم بصورت دیگر پیسے کے عوض رسائی یا ریچ کے تحت یہ سوشل صارف کا فیصلے کا عنصر درمیان سے غائب ہوجاتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا نظریہ ہے اس نوعیت کے فیصلوں پر پیسے کے عوض سمجھوتا نہیں ہونا چاہیئے۔
ٹوئیٹ میں ڈارسے کا مزید کہنا تھا کہ یہ سیاسی اشتہارات پر پابندی کا فیصلہ مالی فائدے کیلئے نہیں بلکہ اصول پر مبنی ہے۔
ٹوئیٹر پر یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سوشل پلیٹ فارمز پر سیاسی اشتہارات کے حوالے سے سلی کون ویلی میں کمپنیوں کی شدید جانچ جاری ہے۔
سوشل پلیٹ فارمز بشمول فیس بک کو سیاسی رہنماوں کے اشتہارات چلانے پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ٹوئیٹر کی حالیہ سیاسی اشتہارات سے متعلق پالیسی اسکو فیس بک کے بالکل مخالف کھڑا کردیتی ہے ، فیس بک کے سربراہ مارک زکربرگ بھی سیاسی اشتہارات پر فیکٹ چیک نہ کرنے سے متعلق اپنی پالیسی کا دفاع کرتے آئے ہیں۔
مارک زکربگ کا موقف رہا ہے کہ نجی کمپنیوں کا حق نہیں ہے وہ سیاسی پیغامات یا نیوز کو سنسر کرنے کے فرائض سرانجام دیں۔ تاہم ان کا موقف تھا کہ وہ اس حوالے سے جانچ جاری رکھیں گے کہ فیس بک پر آیا سیاسی اشتہارات سود مند ہیں یا نہیں۔ تاہم ابھی ان کا فیصلہ یہ ہے کہ سیاسی اشتہارات کو فیس بک پر اجازت دینا ایک بہتر عمل ہے۔
Comments are closed on this story.