ایک بھارتی فوجی نے اس وقت تک گھونسے مارے، جب تک خون نکلنا شروع نہیں ہوگیا
بھارتی میڈیا میں بھی مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کی گمشدگی یا اغواء کی رپورٹس منظر عام پر آنے لگی ہیں اور ان نوجوانوں کی گمشدگی یا اغواء کے پیچھے بھارتی فورسز کو ملوث قرار دیا جارہا ہے۔
انڈیا ٹوڈے میں بھی بعض نوجوانوں کی کہانی بیان کی گئی ہے کہ کس طرح بھارتی فوج نے ان پر تشدد کیا اور ظلم کا نشانہ بنایا ہے اور اسہی طرح پلوامہ کے ایک گاوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ، دو ہزار گھروں کے اس گاوں میں عام طور عمر رسیدہ افراد بند دکانوں یا پھر سڑکوں پر گھومتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ اور خوف کے باعث یہاں سے نوجوان ہی فرار ہوگئے یا چھپ گئے ہیں ۔
انڈیا ٹوڈے میں شائع خبر میں پلوامہ کے گاوں کے ایک زخمی نوجوان کا تذکرہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ زخموں سے چور گدے پر لیٹا یہ نوجوان انڈیا ٹوڈے کے نمائندے سے التجا کرتا ہے کہ اس کا نام خبر میں نہ لکھا جائے ورنہ بھارتی فوج اسکو قتل کردیں گے۔
رپورٹ میں اسہی طرح ایک اریہال نامی گاوں کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جہاں پر ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ کھیت میں کام کررہا تھا اچانک بھارتی فوجیوں نے اس پر حملہ کردیا اور اسکو کھیتوں میں ہی شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
متاثرہ شخص کاکہنا تھا کہ ایک بھارتی فوج نے مجھے اس وقت تک گھونسے مارے جب تک میرے جسم سے خون بہنا شروع نہیں ہوگیا۔تشدد کے بعد یہ شخص بے ہوش ہوگیا اور اس کی آنکھ اسپتال میں کھلی ۔ کہا جارہا ہے کہ بھارتی فوج اس آدمی سے یہ جاننا چاہتی تھی کہ وہاں پر مولوی کو کس نے اجتماع سے خطاب کرنے کیلئے بلایا تھا۔
حقائق جاننے کیلئے بعض انسانی حقوق کی رہنماوں نے بھی مقبوضہ وادی کا دورہ کیا تھا، اور انہوں نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ وادی میں چودہ سال تک کے تیرہ ہزار نوجوانوں کو حراست رکھا گیا ہے۔
اگرچہ کہ اس حوالے سے باضابطہ حکومتی تصدیق نہیں آئی ہے تاہم سپریم کورٹ کی کمیٹی میں حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ فورسز نے ایک سو چوالیس نوجوانوں کو پتھراو کرنے کے الزام میں حراست میں لے رکھا ہے۔
وادی میں تشدد اور نوجوانوں کے اغواء کے الزامات کی بھارتی فوج مسلسل تردید کررہی ہے اور پولیس حکام کا بھی دعویٰ ہے کہ ان کو شہریوں کو خوف وہراس پھیلانے یا تشدد کرنے سے متعلق کسی قسم کی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔ لیکن پلوامہ میں اسپتال کے سینئر ڈاکٹرز نوجوانوں پر تشدد کی ڈرانے والے حقائق بتاتے ہیں ، کہ بھارتی فوج کے تشدد کے کس طرح نوجوانوں کے کان کے پردے کس طرح متاثر ہوئے۔
واضح رہے کہ بھارتی فوج کے سربراہ بپن راوت نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ اگر ان کو وادی میں تشدد کی کوئی شکایت ملی تو وہ اس کی ذاتی طور پر مکمل تحقیقات کروائیں گے۔ لیکن میڈیا میں اسکے برخلاف رپورٹس منظر عام پر آرہی ہیں لیکن بھارتی فوج کے سربراہ ان پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہیں۔
Comments are closed on this story.