سپریم کورٹ: توہینِ مذہب کا ملزم 17 سال بعد بری
پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے ماتحت عدالتوں سے توہین مذہب کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والے شخص وجیہہ الحسن کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا ہے۔
وجییہ الحسن ان دنوں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں۔
عدلیہ کی حالیہ تاریخ میں یہ دوسرا واقعہ ہے کہ کسی شخص کو توہین مذہب کے مقدمے میں بری کیا گیا ہو۔ اس سے قبل اکتوبر 2018 میں سپریم کورٹ نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو بھی ایسے ہی مقدمے میں ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی پر بری کیا تھا۔
وجیہہ الحسن کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ سنہ 1999 میں لاہور کے تھانے اقبال ٹاؤن میں درج کیا گیا تھا ۔
سنہ 2002 میں لاہور کی سیشن عدالت نے وجیہہ الحسن کو سزائے موت سنائی تھی اور اس فیصلے کے خلاف دائر کی گئی اپیل کو 8 سال کے بعد 2010 میں لاہور ہائی کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے ماتحت عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وجیہہ الحسن کی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیل کی پہلی مرتبہ سماعت سنہ 2015 میں ہوئی۔
بدھ کے روز اس اپیل کی سماعت اسلام آباد میں جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی جبکہ وکلا نے لاہور سے ویڈیو لنک کے ذریعے اس اپیل کے حق اور مخالفت میں دلائل دیے۔
وجیہہ الحسن کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکل کو ایک سازش کے تحت اس مقدمے میں پھنسایا گیا ہے جبکہ مقدمے کے مدعی کو خط اُن کے مؤکل نے نہیں بلکہ حسن مرشد مسیح نامی شخص نے لکھے تھے۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے ماتحت عدالتوں کی طرف سے وجیہہ الحسن کو دی گئی موت کی سزا کو کالعدم قرار دے کر ان بری کرنے کا حکم دیا۔
Source: BBC Urdu
Comments are closed on this story.