Aaj News

اتوار, نومبر 24, 2024  
21 Jumada Al-Awwal 1446  

کہنی ٹکرانے پر بجلی کا جھٹکا لگنے کی وجہ

شائع 21 ستمبر 2019 09:39am

کُہنی کا ایک مخصوص حصہ جب کسی چیز سے اچانک ٹکراتا ہے تو بازو میں بجلی کا ایک جھٹکا لگتا ہے، جو کبھی کبھار کافی تکلیف دہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہنی کا یہ حصہ اتنا خاص کیوں ہے اور یہ جھٹکا اتنا تکلیف دہ کیوں ہوتا ہے؟

اس حصے کو "فنی بون" کہا جاتا ہے جو بنیادی طور پر النر نرو (زندی عصب) ہے، یہ ایسے عصب ہیں جو گردن سے ہاتھ تک جارہے ہیں جہاں وہ ہاتھوں اور کہنی کے متعدد مسلز کو مضبوط بناتے ہیں اور ان کا اختتام 2 شاخوں کی شکل میں ہاتھ کی چھوٹی انگلی اور ہاتھ کی تیسری انگلی میں ہوتا ہے۔

گردن سے ہاتھوں تک کی لمبائی کے دوران  النر نرو کا بڑا حصہ جسم کے دیگر اعصاب، ہڈیوں، مسلز یا دیگر کی طرح محفوظ ہوتا ہے۔ مگر جب یہ عصب کہنی سے گزرتے ہیں تو یہ ایک ایسے چینیل سے گزرتے ہیں جسے کیوبیٹل ٹنل کہا جاتا ہے اور یہاں اسے بس جلد اور چربی کا ہی تحفظ حاصل ہوتا ہے، جس کی وجہ جھٹکوں کے حوالے سے کمزوری آجاتی ہے۔

جب یہ فنی بون کسی چیز سے ٹکراتی ہے تو درحقیقت وہ عصب ہڈی سے ٹکراتے ہیں اور دب جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں درد، سن ہونے اور جھنجھناہٹ کے امتزاج کا زبردست احساس ہوتا ہے جو ان حصوں تک جاتا ہے جہاں یہ عصب کام کررہے ہوتے ہیں یعنی کہنی سے نیچے ہاتھوں کی انگلیوں تک۔

جب کہنی کا یہ حصہ کسی جگہ سے ٹکراتا ہے تو جو احساس ہوتا ہے اس کا علم تو ہر ایک کو ہی ہوتا ہے، مگر تصور کریں اس جگہ مسلسل جھٹکے محسوس ہوں، جیسے کوئی دن رات اپنی کہنی کو کسی جگہ سے ٹکرا رہا ہو تو پھر؟ اس مسئلے کو کیوبیٹل ٹنل سینڈروم کہا جاتا ہے۔

ایسا اس وقت ہوتا ہے جب یہ النر نرو کہنی کے سفر کے دوران دب جائے یا سکڑ جائیں، ایسا عام طور پر ات کو بازو سرہانے کے طور پر استعمال کرنے کے نتیجے میں ہوتا ہے، جس کے باعث کہنی کے ٹکراﺅ کے جھٹکے، سن ہونے، تکلیف اور جھنجھناہٹ جیسے احساسات ہوتے ہیں، مگر ان کا دورانیہ ذرا طویل ہوتا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ وہ عصب ہی سن ہوجاتے ہیں جس سے کہنی اور ہاتھ کے مسلز بھی کمزور ہوجاتے ہیں، جبکہ ہاتھ کی تیسری اور چھوٹی انگلی کی پوزیشن ایسی ہوجاتی ہے جیسے ان 2 انگلیوں کو آپ نے موڑا ہوا ہے، اسے النر کلا بھی کہا جاتا ہے۔

اس کا علاج عام طور پر کہنی کی پوزیشن کو ٹھیک کرنے اور سہارا دینے سے کیا جاتا ہے، ہاتھ کی تھراپی بھی موثر ہوتی ہے مگر سنگین معامالت میں سرجری کی بھی ضرورت پڑتی ہے، تاکہ عصب کو زیادہ جلگہ فراہم کی جاسکے اور اس پر دباﺅ کی مقدار کم ہو۔