ہٹ دھرم بھارت کو پاکستانی ہندووں کی استیاں بھی قبول نہیں
ہٹ دھرم بھارت کو پاکستانی ہندووں کی استیاں بھی قبول نہیں۔ بھارتی بیوروکریسی پاکستان میں وفات پانے والے ہندووں کیلئے بھی رکاوٹ پیدا کرنے لگ گئی۔بھارتی بیورکریسی کی سخت ویزا پالیسیاں پاکستان میں وفات پانے والے ہندووں کی زندگی کی آخری خواہش میں بھی رکاوٹ بن گئی ہیں۔
پاکستان بیس کروڑ سے زائد آبادی والا ملک ہے اور یہاں پر چالیس لاکھ کے لگ بھگ ہندو بھی آباد ہیں جبکہ ہندووں کی بڑی آبادی اندرون سندھ آباد ہیں جبکہ محض کراچی میں ہی دو لاکھ پچیس ہزار ہندو رہائش پذیر ہیں ۔
ہندووں میں مرنے کے بعد کسی بھی شخص کو جلادیا جاتا ہے اور اسکے بعد بچنے والی راکھ کو دریا برد کردیا جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے عام طور پر ہندووں کے شمشان گھاٹ دریا یا پھر کسی نہر کے کنارے بنائے جاتے ہیں ۔
عاطم پرکاش جیسے کئی ہندووں نے اپنی استیووں کو بھارت میں گنگا میں بہانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ گنگا میں عام طور پر ہندو اپنی مذہبی رسم کے طور پر جلائے گئے ہندووں کی راکھ یا استیو کو بہاتے ہیں ، اور یہی وجہ ہے کہ دریائے گنگا کو عام طور پر بھارت میں مذہبی لحاظ سے کافی اہمیت دی جاتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر ہمیشہ سے تعلقات کافی کشیدہ رہے ہیں۔ لیکن پانچ اگست کے بعد آرٹیکل تھری سیونٹی کے خاتمے کےبعد بھارت کا ویزا حاصل کرنا تقریبا ناممکن ہوگیا ہے ۔
کراچی میں شمشان گھاٹ کے نگراں شری رام ناتھ نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ استیووں کیلئے ویزا لینا کبھی بھی آسان نہیں رہا ہے ۔
رام ناتھ نے مزید بتایا کہ پچاس پاکستانی ہندووں نے اپنے عزیزوں کی استیووں کو دریائے گنگا میں بہانے کیلئے ویزا بھارت سے مانگا تھا لیکن اسکو نامنظور کردیا گیا تھا۔تاہم رام ناتھ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں زیادہ تر ہندووں کی راکھ یا استیووں کو دریائے سندھ میں بھی بہا دیا جاتا ہے کیونکہ اسکو کافی معتبر جانا جاتا ہے۔
اس موقعے پر سنی گھنشام نامی ایک ہندو نے سوال اٹھایا کہ اگر پاکستان کرتارپور راہداری سکھوں کیلئے کھول سکتا ہے تو اسہی طرح وفات پانے والے پاکستانی ہندووں کی راکھ کو بھی دریائے گنگا میں بہانے کا حق ملنا چاہیئے۔
Comments are closed on this story.