Aaj News

منگل, نومبر 05, 2024  
02 Jumada Al-Awwal 1446  

'امریکی جاسوس برسوں تک روسی صدر کی رہائشگاہ میں ملازم رہا'

شائع 11 ستمبر 2019 10:50am

Untitled-1

روس امریکا تعلقات کو اس وقت زبردست دھچکا لگا جب ایک مبینہ امریکی جاسوس کے دو سال پہلے تک کریملن میں کام کرنے کا انکشاف ہوا۔ روس نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ سی آئی اے کا یہ مبینہ جاسوس صدر پیوٹن کی سرکاری رہائش گاہ میں کام کرتا تھا۔

جرمن خبر رساں ادارے Deutsche Welle کے مطابق امریکی ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹس میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے کریملن میں کام کرنے والے ایک جاسوس کو روسی صدر پیوٹن کے قریبی حلقوں تک رسائی حاصل تھی۔ اس امریکی جاسوس کو دو سال پہلے 2017ء میں اس لیے کریملن سے نکال لیا گیا تھا کہ اس کی اصل شناخت سامنے آجانے کے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔

دوسری طرف روسی دارالحکومت میں صدر پیوٹن کی کریملن کہلانے والی سرکاری رہائش گاہ کی طرف سے منگل کے روز تصدیق کر دی گئی کہ یہ مبینہ امریکی جاسوس ماسکو میں روسی صدارتی دفتر کی انتظامیہ کیلئے کام کرتا رہا تھا۔

کریملن کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے کہا، ''اس شخص کو صدر پیوٹن تک کوئی براہ راست رسائی حاصل نہیں تھی اور وہ ایک نچلے درجے کا سرکاری اہلکار تھا۔"

روسی نیوز ایجنسی تاس نے پیسکوف کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس شخص کو 'کئی سال پہلے نوکری سے نکال دیا گیا تھا'۔

کریملن کے ترجمان نے مزید کہا، ''اس شخص کی ملازمت کسی سینیئر سرکاری درجے کی پوزیشن نہیں تھی۔" دیمیتری پیسکوف نے یہ بھی کہا کہ انہیں ایسی کوئی اطلاع نہیں کہ یہ شخص امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کیلئے کام کرتا رہا تھا۔

یمیتری پیسکوف نے یہ باتیں آج ماسکو میں اس پس منظر میں کہیں کہ امریکی نشریاتی ادارے سی این این اور اخبار نیو یارک ٹائمز کی رپورٹوں کے مطابق یہ مبینہ جاسوس کریملن میں سی آئی اے کیلئے کام کرتا تھا، جسے 2017ء میں اس کی اصلیت سامنے آ جانے کے خوف اور اس کی سلامتی کو درپیش خطرات کے باعث پیدا ہونے والے خدشات کے باعث وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔

امریکی میڈیا کا یہ دعویٰ چونکہ روس کیلئے سیاسی اور سفارتی سطح پر شرمندگی کا باعث سمجھا جا سکتا تھا، اس لیے کریملن کے ترجمان نے اس بارے میں کہا، "امریکی میڈیا میں کئے جانے والے یہ تمام دعوے کہ اسے جلدی سے نکال لیا گیا تھا، اور اسے کس سے بچانے کی کوشش کی گئی تھی، یہ سب ایسی کہانیاں ہیں، جو من گھڑت اور محض زیب داستاں کیلئے ہیں۔"

ان روسی دعووں کے برعکس سی این این اور نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹوں میں کہا ہے کہ سی آئی اے کا یہ اثاثہ (اس کیلئے کام کرنے والا مخبر) کئی سال تک روسی حکومتی ڈھانچے کے اندر موجود تھا اور اسے کریملن میں اعلیٰ حکام تک رسائی حاصل تھی۔"

نیو یارک ٹائمز کے مطابق اس امریکی جاسوس کو روسی صدر پیوٹن کے قرب و جوار تک ملنے والی رسائی اتنی اہم تھی کہ اس نے اس شخص کو 'سی آئی اے کے قیمتی ترین روسی اثاثوں میں سے ایک' بنا دیا تھا۔

جریدے نیو یارک ٹائمز کے مطابق اس جاسوس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے مبینہ طور پر امریکی انٹیلی جنس اداروں کو صدر پیوٹن کے اس حکم نامے سے متعلق شواہد بھی مہیا کئے تھے، جس میں مبینہ طور پر 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کا ذکر کیا گیا تھا۔

امریکی میڈیا رپورٹوں کے مطابق سی آئی اے نے اپنے اس اثاثے کو کریملن سے نکالنے کی کوشش 2016ء میں اس وقت کی تھی، جب امریکی صدارتی الیکشن میں روس کی مبینہ مداخلت کی بہت سی تفصیلات سامنے آ گئی تھیں اور یوں یہ خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ کریملن میں امریکا کا یہ جاسوس پرخطر انداز میں بےنقاب بھی ہو سکتا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس جاسوس نے 2016ء میں اپنے 'کریملن سے نکلنے' سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم ایک سال بعد جب 2017ء میں سی آئی اے نے اس پر دوبارہ دباؤ ڈالا، تو اس نے یہ تجویز قبول کر لی تھی۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے بتایا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے ذرائع کے بقول اس امریکی جاسوس کو کریملن سے نکالنے کی وجوہات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی کابینہ کے ارکان کی وجہ سے پیدا ہونے والے تحفظات بھی تھے۔ ان ذرائع کے مطابق ٹرمپ اور ان کی کابینہ نے خفیہ معلومات کو محفوظ رکھنے سے متعلق مبینہ لاپروائی کا مظاہرہ کیا تھا۔

ان میں سے ایک واقعہ 2017ء میں اس وقت پیش آیا تھا جب صدر پیوٹن سے ایک نجی ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے ایک مترجم کے تحریری نوٹس بھی زبردستی اپنے قبضے میں لے لیے تھے۔

دوسری طرف وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری اسٹیفنی گریشم نے سی این این کی اس حوالے سے رپورٹ پر اپنے ردعمل میں کہا ہے، ''سی این این کی رپورٹنگ نہ صرف یہ کہ غلط ہے بلکہ اس میں یہ امکان بھی پایا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے انسانی جانیں خطرے میں پڑ جائیں۔"

اس کے علاوہ خود سی آئی اے نے بھی ان امریکی میڈیا رپورٹوں کی تردید کی ہے۔