Aaj News

اتوار, نومبر 24, 2024  
21 Jumada Al-Awwal 1446  

کرفیو کا 27واں روز: بھارتی مظالم کی اذیت ناک داستانیں بی بی سی باہر لے آیا

اپ ڈیٹ 31 اگست 2019 01:26pm
-BBC

سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی اذیت ناک داستانیں بی بی سی باہر لے آیا، برطانوی نشریاتی ادارے نے بھارتی بربریت کا کچا چٹھا کھول دیا، وادی میں کرفیو کا آج ستائیسواں روز ہے۔

بھارتی فوج احتجاج سے روکنے کے لیے انسانیت سوز مظالم توڑنے لگی، نوجوانوں کو گھروں سے اُٹھایا، سلاخوں اور لاٹھیوں سے تشدد کا نشانہ بنایا، بجلی کے جھٹکے تک دے ڈالے۔

بی بی سی کے رپورٹر نے چھ سے زائد دیہاتوں کا دورہ کیا،  ہر گھر اور محلے میں ایک جیسی کہانیاں سننے کو ملیں۔ نوجوان ظلم سہتے ہیں لیکن آزادی کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔

 مقبوضہ وادی کشمیر میں قابض بھارتی افواج بے گناہ اور مظلوم کشمیریوں کو ڈنڈوں، لوہے کی سلاخوں اور تاروں سے مارتی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ مظلوموں کی چیخ دور تک سنائی نہ دے ان کے منہ کو مٹی ڈال کر بند کردیتی ہے۔ سنت رسولﷺ کے حامل کشمیریوں کی داڑھی کو اس طرح کھینچتی ہے کہ تشدد سہنے والے کو لگتا ہے کہ اس کے سارے دانت ہی نکل پڑیں گے اورصرف اسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا ہے بلکہ کوشش کی جاتی ہے کہ داڑھی کو نذر آتش ہی کردیا جائے۔

بہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد سہنے والے جب بیہوش ہو جاتے ہیں تو انہیں ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے جاتے ہیں۔ درندہ صفت بھارتی افواج تشدد کے دوران بے گناہوں میں اپنا خوف و ہراس پیدا کرنے کے لیے ان کے جسمانی اعضا تک توڑ دیتی ہے اور بعض کو اس قابل بھی نہیں چھوڑتی ہے کہ وہ پیٹھ کے بل لیٹ سکیں۔

مقبوضہ وادی چنار میں گزشتہ 26 روز سے جاری کرفیو کے دوران پہلی مرتبہ برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے رپورٹر سمیر ہاشمی نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے اپنی رپورٹ شائع کی ہے جس نے دنیا کے سامنے ایک مرتبہ پھر بھارت کی انتہا پسند جنونی حکومت کا مکروہ چہرہ ثبوت و شواہد کے ساتھ بے نقاب کیا ہے۔

جنونی ہندوؤں کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے نامزد وزیراعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور مشیر قومی سلامتی امور اجیت ڈووال کی جانب سے مقبوضہ وادی کشمیر میں پانچ اگست کو غیر معینہ مدت کے لے کرفیو نافذ کیا گیا تھا جوتاحال برقرار ہے۔ بھارتی حکومت نے دنیا سے اپنے انسانیت سوز مظالم پوشیدہ رکھنے کے لیے نہ صرف ہمالیائی علاقے میں کرفیو نافذ کیا تھا بلکہ ہر طرح کا مواصلاتی نظام بھی منقطع کردیا تھا۔

مقبوضہ وادی کے کٹھ پتلی گورنر نے ریاستی مظالم کو چھپانے کے لیے خبر رساں اداروں اور ایجنسیوں کے نمائندگان سے وادی خالی کرالی تھی اور کسی بھی غیر جانبدار ادارے کو متاثرین سے ملنے یا متاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔

بی بی سی کے نمائندے کے مطابق کئی دیہاتیوں نے بمشکل بتایا کہ انھیں لاٹھیوں و بھاری تاروں سے مارا گیا اور بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔ نمائندے کو کئی دیہاتیوں نے اپنے زخم بھی دکھائے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے نمائندے کے مطابق انہوں نے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے جنوبی اضلاع کے نصف درجن دیہاتوں کا دورہ کیا تو تمام دیہاتوں میں کئی لوگوں سے رات گئے چھاپوں، مارپیٹ، اور تشدد کی ملتی جلتی کہانیاں سنیں۔

انہوں نے تصدیق کی کہ محکمہ صحت کے ملازمین اور ڈاکٹروں نے صحافیوں سے کسی بھی قسم کی بات چیت سے انکار کیا لیکن دیہی علاقوں میں رہنے والوں نے مجھے اپنے زخم دکھائے اورالزام سکیورٹی فورسز پر لگایا۔

ایک گاؤں میں مقیم دو بھائیوں کا الزام تھا کہ انھیں جگایا گیا اور باہر علاقے میں لے جایا گیا جہاں ان کے گاؤں کے تقریباً ایک درجن دیگرافراد بھی موجود تھے۔ متاثرہ شخص نے بتایا کہ لے جانے والے فوجیوں نے انہیں مارا جب کہ ہم پوچھتے رہے کہ ہمارا قصور کیا ہے؟ لیکن انہوں نے کچھ بھی نہ سنا اور بس مارتے رہے۔

بھارتی افواج کے مظالم سہنے والے متاثرہ کشمیری کا کہنا تھا کہ فوجیوں نے میرے جسم کے ہر حصے پر مارا پیٹا۔ انھوں نے ہمیں لاتیں ماریں، ڈنڈوں سے مارا، بجلی کے جھٹکے دیے، تاروں سے پیٹا۔ انھوں نے ہمیں ٹانگوں کی پچھلی جانب مارا۔ جب ہم بے ہوش ہو گئے تو انھوں نے ہمیں ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے۔ جب انھوں نے ہمیں ڈنڈوں سے مارا اور ہم چیخے تو انھوں نے ہمارے منہ مٹی سے بھر دیے۔

بی بی سی کے نمائندے سے بات چیت میں اپنی بے بسی ظاہر کرتے ہوئے مظلوم کشمیری نے بتایا کہ اتنا تشدد کیا گیا کہ خود میں نے ان سے کہا کہ ہم پر تشدد نہ کریں، بس ہمیں گولی مار دیں۔  اس نے اعتراف کیا کہ میں تشدد کے دوران خدا سے موت کی دعا کر رہا تھا کیونکہ  ہونے والا تشدد ناقابلِ برداشت تھا۔

ایک دوسرے نوجوان دیہاتی نے اپنی بپتا سناتے ہوئے بتایا کہ بھارتی سپاہیوں نے مجھ سے عینک، کپڑے اور جوتے اتروائے جس کے بعد دو گھنٹے تک مجھے نہایت بے رحمی سے ڈنڈوں اور سلاخوں سے پیٹا گیا اور جب میں بیہوش ہو گیا تو ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔

بی بی سی سے بات چیت میں اس مظلوم بے گناہ کشمیری نے خبردار کیا کہ اگر اب دوبارہ میرے ساتھ پرانا سلوک دوہرایا گیا تو میں کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہوں یعنی میں بندوق بھی اٹھا سکتا ہوں کیونکہ روز روز کا تشدد برداشت نہیں کرسکتا ہوں۔

ایک دیہات میں بی بی سی کی ملاقات 20 سالہ نوجوان سے ہوئی جس نے کہا کہ فوج نے انھیں دھمکی دی تھی کہ اگر وہ عسکریت پسندوں کے خلاف مخبر نہ بنے تو انھیں پھنسا دیا جائے گا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ ان کے انکار پر انھیں اس بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی وہ کمر کے بل لیٹ نہیں سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو میرے پاس اپنا گھر چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایسے مارتے ہیں جیسے جانوروں کو مارا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتے ہیں۔

بی بی سی کو ایک اور شخص نے بتایا کہ 15 سے 16 سپاہیوں نے انھیں زمین پر گرایا جس کے بعد تاروں، بندوقوں، ڈنڈوں اورشاید فولادی سلاخوں سے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نیم بے ہوش تھا جب انھوں نے میری داڑھی اس بری طرح سے کھینچی کہ مجھے لگا جیسے میرے دانت باہر گر پڑیں گے۔

انھوں نے کہا کہ ان پر ہونے والا تشدد دیکھنے والے ایک لڑکے نے انھیں بتایا کہ ایک فوجی نے ان کی داڑھی جلانے کی کوشش کی تھی مگر دوسرے فوجی نے اسے روک دیا۔

بی بی سی کی ملاقات ایک دوسرے گاؤں میں ایک نوجوان سے ہوئی جس نے کہا کہ ان کے بھائی نے دو سال قبل کشمیر پر انڈیا کی حکومت کے خلاف لڑنے والے حزب المجاہدین میں شرکت اختیار کر لی تھی۔

انھوں نے کہا کہ حال ہی میں ان سے ایک فوجی کیمپ میں تفتیش کی گئی تھی جہاں ان پر تشدد کیا گیا اور ایک ٹانگ توڑ دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فوجیوں نے میرے ہاتھ باندھ دیے اورمجھے الٹا لٹکا دیا۔ انھوں نے مجھے دو سے زائد گھنٹوں تک شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔