Aaj News

اتوار, نومبر 24, 2024  
21 Jumada Al-Awwal 1446  

برطانوی اخبار نے مقبوضہ کشمیر میں بڑے خطرے کا عندیہ دے دیا

شائع 28 اگست 2019 09:56am
فائل فوٹو فائل فوٹو

سری نگر: برطانوی اخبار دی گارجین 5 اگست کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے والی کشمیریوں کی گرفتاری کی  کہانیاں منظر عام پر لے آیا۔

گارجین کے مطابق بڑے پیمانے پر ہونے والی ان گرفتاریوں نے کشمیری خاندانوں کو تقسم کر دیا، 5 اگست سے ہزاروں نوجوانوں کو جیلوں میں قید کیا گیا ہے، جس کے باعث والدین سارا سارا دن جیلوں کے باہر ملاقات کے لیے کھڑے رہتے ہیں مگر انہیں ان کے جگر گوشوں سے ملنے بھی نہیں دیا جاتا۔

برطانوی اخبار کے مطابق ان تین ہفتوں کے دوران 2300 سے 4000 تک کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے، بہت سے کشمیری والدین یہ دہائی بھی دے رہے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کے بچے مقبوضہ وادی ہی میں ہیں یا انہیں بدنام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت لکھنو، بریلی یا آگرہ شفٹ کر دیا گیا ہے کیونکہ عالمی اداروں کا دعویٰ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی جیلیں بھر چکی ہیں۔

اس صورتحال میں جب والدین کشمیر سے باہر نہیں جا سکتے اور بچے دوسرے شہروں کی جیلوں میں نہ جانے کس حال میں ہیں کی صورتحال نے والدین کو مزید پریشان کر رکھا ہے ،بدنام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ بھارتی حکومت ظلم کا یہ ضابطہ بھی فراہم کرتا ہے کہ بغیر مقدمہ چلائے قیدی کو دو سال تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔

خبر ایجنسی کے مطابق بھارتی فوج نے سری نگر کے علاقے صورہ میں بڑے کریک ڈاؤن کی تیاریاں کرلیں، بھارتی پابندیوں کے باوجود احتجاج کا مرکز بننے والے مقبوضہ کشمیر کے علاقے صورہ میں بھارتی فوج کسی بھی وقت کریک ڈاؤن کرسکتی ہے۔ پولیس کے اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس علاقے صورہ میں عنقریب ایک وسیع کریک ڈاؤن کیا جائے گا ۔

غیر ملکی خبر ایجنسی نے چند روز قبل ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ سری نگر کا علاقہ صورہ بھارتی فوج کے لیے نوگو ایریا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کشمیری نوجوانوں نے پہرے داری نظام بناکر صورہ میں بھارتی فوج کا داخلہ بند کررکھا ہے۔ صورہ میں کشمیریوں نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کررکھی ہیں جبکہ پہرے داری نظام کے تحت ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں، بھارتی فوج کی آمد پر مساجد سے اعلانات کیے جاتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کی جبری پابندیاں 23 ویں روز بھی برقرار ہیں ،کھانے پینے کی اشیا اور دواؤں کی قلت بڑھ گئی ہے جبکہ کشمیریوں کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہے۔