کشمیر گرفتاریاں ،میرے بیٹے کو جب اٹھایا تو اسے قمیض بھی پہننے نہیں دی
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی قانونی حیثیت کے خاتمے کے بعد وادی میں گرفتاریوں کی اطلاعات ہیں لیکن انڈین پولیس اس بارے میں مکمل معلومات نہیں دے رہی ہے۔
بی بی سی نے دو ایسی خواتین سے ملاقات کی ہے جن میں سے ایک کا بیٹا جبکہ ایک کا شوہر لاپتہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز ان کے پیاروں کا اٹھا کر لے گئی ہیں۔
ایک کشمیری خاتون کا کہنا ہے کہ جب اسکے بیٹے کو گھر سے اٹھایا تو اسے قمیض اور جوتے بھی پہننے نہیں دیئے ،جیسے وہ کوئی عسکریت پسند ہے۔ اور وہ بے بس تھا۔
اطلاعات کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی قانونی حٰیثیت میں خاتمے کے بعد ہزاروں افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، ان افراد کو متنازع قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت پکڑا گیا ہے جو سیکیورٹی فورسز کو بغیر مقدمہ چلائے دو سال تک حراست میں لینے کی اجازت دیتا ہے۔
پروین نامی کشمیری خاتون بھی ان میں سے ایک ہیں جن کے بیٹے کو حراست می لیا گیا ہے، کشمیری خاتون نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا وہ لوگ سورہے تھے انہوں نے رات تین بجے دستک دی۔ خاتون نے مزید بتایا جب اس نے لائٹ کھولی تو بھارتی فوجی اہلکاروں نے لائٹ بند کرنے کا کہا۔ اور اسکے بیٹے کو نشانے پر لے لیا تو میں سکتے میں آگئی، بھارتی اہلکاروں کا کہنا تھا کہ وہ اسکو لے جارہے ہیں جلد چھوڑ دیں گے۔
بھارتی حکام گرفتاریوں کے بارے میں بہت کم معلومات دیتے ہیں۔
اس دوران کئی خاندان اذیت میں مبتلا ہیں ، انکے پاس بہت سے سوالات ہیں جو وہ نہیں جانتے۔
ثمینہ نامی خاتون کے شوہر بھی ان افراد میں شامل ہیں ، ایک دستاویز دکھاتے ہوئے انہوں نے بتایا یہ شادی شدہ ہیں لیکن غیر شادی شدہ لکھا ہے۔ ثمینہ کا کہنا ہے کہ وہ فوجی کہتے ہیں یہ نوجوان لڑکے ہیں ، غنڈہ گردی کرتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں ان لڑکوں پر ۔
ثمینہ نے مزید بتایا کہ وہ سری نگر جیل گئے تو وہ چسپاں تھا کہ انکے شوہر کو لکھنو جیل منتقل کردیا گیا ہے۔لیکن پولیس میں سے کسی نے نہیں بتایا وہ لکھنو میں ہیں۔
Source: BBC URDU
Comments are closed on this story.