Aaj News

جمعرات, دسمبر 19, 2024  
17 Jumada Al-Akhirah 1446  

پراسرار آوازوں سے امریکی سفیروں کے دماغ سُکڑ گئے

شائع 29 جولائ 2019 07:03am

Untitled-1

سال 2016  سے 2018 کے درمیان ہوانا، کیوبا میں  کام کرنے والے امریکی اور کینیڈین سفیر سردرد،  متلی اور بھولنے کی شکایت کرنے لگے۔ سفیروں میں یہ علامتیں پراسرار آوازوں کے سنائی دینے کے بعد ظاہرہوئی۔ اس مظہر کو بعد میں "کیوبن سونک اٹیکس"(Cuban Sonic Attacks) یا ہوانا سنڈروم کا نام دیا گیا لیکن ہوانا کے حکام نے ایسے کسی واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

تاہم حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ  سفارت کاروں کے ساتھ کچھ ایسا غلط ہوا ہے ، جس سے اُن  کی دماغی ساخت میں تبدیلی آئی ہے، جیسے کچھ کے دماغ 5 فیصد تک سکڑ گئے ہیں۔

جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن  میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ  عجیب و غریب علامات ظاہر ہونے کے بعد بعد 40 سفارت کاروں  کا جدید ایم آر آئی اسکین سے تجزیہ کیا گیا ہے۔

یہ سب وہ سفارت کار تھے، جنہوں نے ہوانا میں قیام کیا تھا۔ ان سفارت کاروں کا اسی طرح کا پس منظر رکھنے والے  دیگر 48 صحت مند افراد سے تقابل کیا گیا۔ اس تحقیق سے پتا چلا کہ ہوانا میں  قیام کرنے والے سفارت کاروں کا دماغ  صحت مند لوگوں کے مقابلے میں 5 فیصد سکڑ گیا ہے۔

اس تحقیق میں حصہ لینے والے یونیورسٹی آف پنسلوینیا  کے پروفیسر  ڈاکٹر ڈگلس سمتھ  نے بتایا کہ اس قسم کی تبدیلیاں ہمارے لیے بالکل نئی ہیں، یہ کیا ہیں ہمیں نہیں معلوم لیکن وہاں کچھ ہوا ضرور ہے۔

اس تحقیق کے بعد لوگوں کی توجہ ایک بار پھر سونک اٹیک پر مبذول ہو گئی ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اُن کی تحقیق کا یہ مطلب نہیں کہ  اس سے کوئی غلط کام ثابت ہوتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سفارت کاروں کے دماغ کیوبا جانے سے پہلے یا عجیب و غریب علامتیں ظاہر ہونے سے پہلے اسکین نہیں کیے گئے تھے۔

ماہرین ابھی  نہیں بتا سکتے کہ یہ تبدیلیاں سونک اٹیک کےبعد کی ہیں یا پہلے کی ہیں۔

سال 2017 میں جب ایک امریکی اہلکار نے پُرشور آوازوں کی آڈیو ریکارڈنگ دنیا کے سامنے پیش کی تو کیوبن سونک اٹیکس پر سب کی توجہ مبذول ہوگئی۔ کیوبا اور امریکا کے تعلقات بھی اس وجہ سے کافی خراب ہوئے۔

ان آوازوں کے حالیہ تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ یہ آواز کیوبا میں رہنے والے مقامی جھینگروں کی ہو سکتی ہے۔ سائنس دانوں کا ایک بات پر اتفاق ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرے گا کیوبا میں ہونے والے واقعے کا پتا چلانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔