دوسری جنگ عظیم کے عجیب اور انوکھے ہتھیار
انسانی تاریخ کے آغاز سے اب تک ہر دور میں ہتھیاروں کی شکلیں بدلتی رہی ہیں تاہم ان کا مقصد نہ پہلے مختلف تھا اور نہ مستقبل میں مختلف ہوگا۔ یہ مقصد اپنا یا اپنے وطن کا دفاع کرنا اور یا پھر دشمن پر حملہ کرکے اس کی پیش قدمی کو روکنا ہوتا ہے۔
البتہ ہتھیار سازی میں ایسی نرالی جدت پسندی بھی سامنے آتی ہے جو بعض اوقات مضحکہ خیز ثابت ہوتی ہے۔ دل چسپ امور سے متعلق مواد شائع کرنے والی انگریزی ویب سائٹLiveScience نے گزشتہ صدی کے چند انوکھے ہتھیاروں پر روشنی ڈالی ہے۔
٭ Bat Bombs
دوسری عالمی جنگ میں بعض امریکی میرینز کو یہ خیال سوجھا کہ وہ چمگادڑوں کو تربیت دے کر انہیں خود کش بم باروں میں تبدیل کر دیں کیوں کہ امریکی فوج اس بات کی خواہش مند نہیں تھی کہ اس کے اہل کار یہ کارروائیاں کریں۔
پیسنلوینیا میں دانتوں کے ایک ڈاکٹر نے سب سے پہلے یہ تجویز پیش کی کہ چمگادڑوں کو گولہ بارود سے لیس کریں اور پھر صوتی لہروں کے انعکاس کے ذریعے ان کے حواس کو جغرافیائی طور پر اہداف کے تعین کیلئے استعمال کیا جائے۔ اگرچہ امریکی فوج نے ہزاروں چمگادڑوں کے ذریعے جاپان کے ایک گاؤں کو بموں سے مکمل طور پر جلا ڈالا تھا تاہم امریکی عہدے داران نے آخرکار اس مصوبے سے توجہ ہٹا لی کیوں کہ ایٹم بم اس سے کہیں زیادہ تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
٭ Pigeon-projected missiles
بموں کے ذریعے حملوں کیلئے پرندوں کا استعمال چمگادڑوں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس مقصد کیلئے کبوتر کو بھی کام میں لایا گیا۔ اس منصوبے کو Project Pigeon کا نام دیا گیا۔ اس سلسلے میں پرندوں کو B.F. Skinner's کے اسلوب پر برتاؤ کی تربیت دی گئی۔ اس کیلئے پہلے کبوتر کو اسکرین پر نظر آنے والے ہدف تک بڑھایا جاتا اور پھر ہدف کے مل جانے پر اس پر ٹھونگ لگوائی جاتی۔
سال 1944 میں اس پروگرام کو ختم کر دیا گیا۔ بعد ازاں 1948 میں اس کو "Project Orcon" کے نام سے دوبارہ متعارف کرایا گیا۔ تاہم آخرکار نیا الکٹرونک گائیڈنس سسٹم کہیں زیادہ قیمتی اور مؤثر ثابت ہوا۔
٭ Iceberg aircraft carrier
دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانوی فوج نے آلہ قتل کے طور پر ایک برفیلی مشین تیار کر لی۔ یہ دراصل ایک بڑا طیارہ بردار وجود تھا جو بنیادی طور پر برف کی مضبوط چٹان یا برفانی تودے پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس منصوبے کو Habakkuk کا نام دیا گیا۔ منصوبے کا سادہ سا طریقہ یہ تھا کہ لکڑی کے تھوڑے سے گودے کو لے کر اسے برف کے ساتھ ملا کر ایسا غیر شکستہ ڈھانچہ تیار کیا جائے جس کو پگھلنے میں کئی ماہ کا عرصہ درکار ہو۔ اس کی خاص بات خام مال کی کم مقدار سے تیار ہونا تھا۔ اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے 1943 میں اس منصوبے پر عمل درامد کا حکم دیا۔
تاہم بدقسمتی سے یہ بات سامنے آئی کہ عملی طور پر یہ ڈھانچے ایک واہیات خیال سے زیادہ کچھ نہیں۔ طیارہ بردار ڈھانچوں کی تیاری کیلئے عظیم الجثہ ڈیپ فریزروں کی ضرورت تھی۔ دوسری جانب یہ عظیم الشان ڈھانچے ناقابل یقین حد تک سست اور بھاری ہوں گے۔
٭ The sticky grenade
دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانویوں نے یہ گرینیڈ تیار کیا۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق فوجیوں کو اپنے دستی بموں میں لگی پِن نکال کر اسے دشمن کے ٹینکوں پر نصب کرنا تھا۔ اگرچہ گولہ بارود کے امور سے متعلق بورڈ نے اس کو مسترد کر دیا تاہم وزیراعظم ونسٹن چرچل کو یہ طریقہ کار پسند آیا۔ انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران 25 لاکھ اِسٹکی گرینیڈز تیار کرنے کا حکم دیا جن کو شمالی افریقہ ، یونان اور دیگر علاقوں میں استعمال کیا گیا۔ بدقسمتی سے ان گرینیڈز کی ڈیزائننگ میں کئی نقائص تھے۔
ٹینکوں پر مٹی اور گرد ہونے کی صورت میں یہ ان پر چپکنے سے قاصر رہتے تھے۔ بعض مرتبہ تو یہ گرینیڈز فوجیوں کی وردیوں سے چپک جاتے تھے جو انتہائی خوف ناک امر تھا۔
٭ Puckle gun
برطانیہ میں 1718 میں ایڈوکیٹ جیمس پکل نے اپنے نام پر اس بندوق کے حقوق محفوظ کروائے۔ یہ بندوق گول کے بجائے مربع صورت کی گولیاں فائر کرتی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کو ڈیزائن کرنے کا مقصد یہ تھا کہ شکار ہونے والے کو انتہائی درجے کی تکلیف اور زخم پہنچایا جائے۔
پکل بندوق دنیا کی پہلی مشین گن تھی اور یہ ایک منٹ میں نو گولیاں فائر کرتی تھی۔
Historic U.K. کے مطابق برطانوی فوج نے اس بندوق کو کبھی استعمال نہیں کیا کیوں کہ اس کا فائرنگ میکانزم ناقابل اعتماد تھا۔ آخرکار ناکامی اس ایجاد کا مقدّر ٹھہری۔
Comments are closed on this story.