Aaj News

منگل, نومبر 05, 2024  
02 Jumada Al-Awwal 1446  

ستمبر کی وہ رات جب تیسری جنگِ عظیم چِھڑنے والی تھی

شائع 07 مارچ 2019 02:42pm

missile

سال 1983کی شدید تناؤ میں گزرنے میں والی ایک رات کواگر معاملات کچھ مختلف ہوتے تو دنیا نے گزشتہ روز تیسری جنگِ عظیم کی 35ویں برسی منائی ہوتی۔

پچیس ستمبر 2018کو مشرقی معیارِ وقت کے مطابق صبح 6بجے اس شخص کو یاد کیا جس کے فیصلےنے دنیا کو نیوکلیئر جنگ سے بچایا۔

چھبیس ستمبر1983کو رات کے آخری پہر جنوبی ماسکو کے ملٹری علاقے سرپوکوف-5میں سائرن بجنا شروع ہوا۔

لیفٹننٹ کرنل اسٹانسِلف پیٹروف کے شیشے کے آفس کے تمام اطراف سرخ اسکرین چلنے لگی جس پر ایک ہی لفظ ‘سٹارٹ’ لکھا آرہا تھا۔

سوویت یونین کے اوکو لانچ ڈیٹیکشن کمپیوٹر سسٹم نے خبردار کیا کہ امریکا نے سوویت یونین پر سنگل انٹر کونٹینینٹل بیلیسٹک میزائل فائر کیا ہے اور وہ 12منٹ میں سویت یونین پر گِرنے والا۔

پیٹروف نے اپنے لرزتے ہاتھوں سے  اعلیٰ افسران کو اس انتباہ کے متعلق مطلع کیا اور انہیں بتایا کہ یہ الارم غلط ہے۔ اُسے یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ امریکا سویت یونین کی جانب سنگل میزائل کیوں فائر کرےگا۔ پیٹروف جو کہ ایک سافٹ ویئر انجنیئر تھا ، نے یہ انتباہ نئے خبردار کیےجانے والے کمپیوٹر سسٹم کا مسئلہ سمجھا۔

اُس نے فون رکھا ہی تھا کہ سسٹم نے دوبارہ وارننگ دینا شروع کردی اور اس کے بعد تین بار اور خبردار کیا گیا۔

سسٹم کے مطابق سویت یونین کی جانب پانچ نیوکلئیر میزائلز  فائر کیے گئے تھے۔

پیٹروف کا کام ملنے والی وارننگ کو اعلیٰ افسران تک پہنچانے کا تھا۔ان افسران کو جن کے پاس یہ اختیار تھا کہ اس سے پہلے امریکی میزائل سوویت یونین کو نشانہ بنائیں، وہ اپنے نیوکلیئر میزائل چلادیں۔

لیکن پیٹروف ایسی کوئی بھی وارننگ اوپر دینے میں جھجکا کیونکہ اُسے اس کمپیوٹر سسٹم پر اعتبار نہیں تھا جِسے بہت عجلت میں کام میں لایا گیا تھا۔

گراؤنڈ ریڈار جنہیں ایک حد کے بعد ان میزائلز کی نشاندہی کرلینی چاہیئے تھی، خاموش رہے۔

پیٹروف کے سامنے موجود اسکرین اُسے ابھی تنبیہ کررہی تھی اور سائرن بج رہے تھے تب اس نے دوبارہ فون اٹھایا اور اعلیٰ افسران کو غلط انتباہ کےمتعلق بتایا ۔ اس لمحے بھی اُسے اس  پر بھروسہ نہیں تھا۔

ایک انٹرویو میں اس نے کہا  یہ خیال میرے ذہن سے گزرا کہ ہوسکتا ہے واقعی میزائل فائر کیے گئے ہوں۔اس بات کی تصدیق کیلئے 15مشکل ترین منٹ درکار تھے۔ لیکن آخر میں کچھ نہیں ہوا۔

دنیا نیوکلیئر جنگ کے دہانے سے ہوکر گزرگئی اور پیٹروف اور اس کے اعلیٰ افسران کے علاوہ 1998تک کسی کو اس بات کے متعلق کچھ معلوم نہ ہوا۔

پیٹروف کا کمپیوٹر سسٹم پر بھروسہ نہ کرنا درست ثابت ہوا۔ کمپیوٹر نے شمالی ڈکوٹا کے بادلوں کو میزائل بتا کر انتباہ جاری کیا۔

پیٹروف جس نے زبردست خطرہ مول لیا اور کروڑوں لوگوں کی جان بچائی، کو فوری طور پر نہ انعام دیا گیا نہ سزا دی گئی۔ اس کا خاموشی سے تبادلہ کیا گیااور 1984میں سوویت آرمی سے قبل از وقت ریٹائر کردیا گیا۔ کچھ برس قبل اُس کی اہلیہ کینسر کےخلاف زندگی کی بازی ہارگئی۔

پیٹروف کے دلیرانہ فیصلے کے متعلق جب معاملات 1998 سامنے آئے تو اُسے بین الاقوامی پذیرائی ملی۔ لیکن متعدد بین الاقوامی ٹور اور لاتعداد میڈیا انٹرویو کے باجود  اس باہمت شخص نے ماسکو میں 2017میں موت واقع ہونے سے پہلے تک انتہائی محدود پینشن اور چھوٹے سے فلیٹ میں گزارا کیا۔

 دنیا کو تباہی سے بچانے والا کسما پرسی کی حالت میں مرگیا۔ لیکن دنیا کی بڑی اور پھلتی پھولتی معیشتیں وہی ہیں جو دنیا کو تباہی کے دہانے تک دھکیلنے کے اسباب پیدا کررہی ہیں۔ اسرائیل، امریکا، چین، فرانس وغیرہ کی معیشت کا بڑا حصہ اسلحہ سازی پر منحصر ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک ان کی معیشتوں کو چلانے کیلئے ان سے بڑی مقدار میں اسلحہ خریدرہیں ہیں۔

نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے ہے، ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔