سوشل میڈیا دنیا اب گلوبل و یلج کی بجائے لوکل ویلج بن گئی
انٹرنیٹ کی آمد سے اطلاعات اور باہمی رابطہ کی دُنیا نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ بہت سے افراد ابھی تک اس سے اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں کر پائے اور آج بھی ایک خاص عمر کے بہت سے مرد وزن ایسے ہیں جنہیں فیس بُک واٹس ایپ ،اسکائپ، حتیٰ کہ ایس ایم ایس جیسی سروسز سے کوئی شناسائی نہیں ہے۔ ابتدائی ایام میں نئی نسل نے انٹرنیٹ کو ہاتھوں ہاتھ لیا جبکہ ان کے بزرگوں کو اس ایجاد کا قطعی علم نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ انٹرنیٹ کا دائرہ کار وسیع ہونا شروع ہوا اور اس نے زندگی کے متعدد شعبوں کو اپنی گرفت میں لینا شروع کیا تو ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کی جانب متوجہ ہوا جائے ترقی یافتہ دُنیا تو کب کی انٹرنیٹ پر منتقل ہوچکی اور ان کا ہر سسٹم اب انٹرنیٹ کی گرفت میں ہے جس سے ان کی استعداد وقوت کار میں ہمہ جہتی اضافہ ہوگیا ہے ۔
ہمارے ملک میں انٹرنیٹ کی مقبولیت کا سلسلہ گزشتہ چند برس سے شروع ہوا اور آہستہ آہستہ مختلف سسٹم اس ایجاد پر منتقل ہونا شروع ہوئے لیکن یہ رفتار ابھی بھی کافی سست ہے ،اس سے ہم اپنی قوت کار میں بھی کوئی خاص اضافہ نہیں کر پائے جس کے نتیجہ میں ہماری پیداواری صلاحیت دوگنا ہوسکتی تھی اور ہم ترقی کی منازل طے کرنے میں جست بھر سکتے تھے۔ ہم نے جو سسٹم انٹرنیٹ پر شفٹ کئے ہیں اُن کو بھی پوری طرح بروئے کار نہیں لایاجارہا،دراصل ہم ایک قوم کی طرح نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی کسی بات پر عمل کرتے ہیں ہمارے سارے پیمانے اپنی ذات، گروہ، اور خاندان کے اردگرد گھومتے ہیں اور ہمارے سارے فیصلوں کا مظہر بس اپنی ذات ہوتی ہے جس کی وجہ سے کسی بھی معاملے میں قومی سوچ بروئے کار نہیں آتی اور ہم وہ نتائج حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں جو بحیثیت قوم ہمیں ملنے چاہیں۔
انٹرنیٹ کی دُنیا کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا،ہم نے اسے قومی ترقی کے آلہ کار کے طور پر لینے کی بجائے محدود ذاتی فوائد کے لیئے استعمال کرنے کو ترجیح دی جس سے انٹرنیٹ کی وہ ایپلیکیشز تومردوزن بالخصوص نوجوانوں میں مقبولیت حاصل کر گئیں جس سے ذات یا گروہ کی تسکین کا سامان ہوتا تھا۔ لیکن انٹرنیٹ کے ذریعے جس طرح جدید کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ اپنے مختلف سسٹم میں شفافیت اور تیزی لانے کا کام لیا جانا چاہیئے تھا اُسے ترجیح
نہ دی گئی۔
یہ بھی پڑھیئے:سوشل میڈیا کی فتنہ انگیزی
سوشل میڈیا کے مختلف پروگراموں نے جس طرح افراد اور معاشروں کو اپنی گرفت میں لیا ہے اُس کاجائزہ لیا جانا بھی ضروری ہے۔
سوشل میڈیا فی الوقت تیز ترین ذریعہ اطلاعات ہے جس کیوجہ سے اس کے اثرات بھی فوری مرتب ہوتے ہیں معاشرہ اس کا اثر قبول کرتا ہے اور اسے بعض اوقات حوالے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے،دوسرے اس میڈیا کی رسائی بین الاقوامی سطح پر فوری اور لازمی ہے کیونکہ جس شخص نے اس کو بطور ممبر جوائن کیا ہوا ہے۔ وہ چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو ایک نظر دیکھنے پر مجبور ہے۔
سوشل میڈیا پر کوئی بھی مواد کسی بھی وقت اپ لوڈ کیا جاسکتا ہے اس کے لیے کوئی پابندی نہیں ہے کہ اپ لوڈ کرنے والا شخص یا ادارہ کون ہے، اس لیے بہت بڑی تعداد میں جعلی ناموں یا بے نامی اکاؤنٹس کھلے ہوئے ہیں،جہاں سے جھوٹ اور گمراہ کن اطلاعات خاص مقاصد کے تحت فراہم کی جاتی ہیں اور ان اطلاعات کو ایسے حوالوں سے بیان کیا جاتا ہے جو موجود ہی نہیں ہوتے لیکن ان کا بیانیہ عوامی احساسات و جذبات کو اپنی گرفت میں لانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔سوشل میڈیا کے ہوتے ہوئے دنیا اب گلوبل و یلج کی بجائے لوکل ویلج کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے ۔ چند منٹ پہلے گزرا ہوا واقعہ فوری طور پر دنیا کے ہر کونے میں دیکھا جاتا ہے ۔
جہاں سوشل میڈیا کے ہوتے ہوئے جھوٹ کو پھیلانا آسان ہے وہیں اب سچ کو چھپائے رکھنا بھی ممکن نہیں ہے، اور یہ حالات افراد اداروں اور حکومتوں کے لیئے پریشان کن صورتحال اختیار کرتے جار رہے ہیں سوشل میڈیا کسی واقعہ یا حادثہ کی فوری اطلاع کا ذریعہ تو بن جاتا ہے لیکن اس واقع یا حادثہ کے پس منظر اور نتائج سے سروکار نہیں رکھتا جس کی وجہ سے عام ناظر صورت حال کا صحیح تجزیہ کرنے سے قاصر رہتا ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جسے ذہن میں رکھ کر مخصوص مفادات کے حامل طبقے ان واقعات کو اپنی عینک سے دیکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور ان کے ایسے عنوانات اور سرخیاں تجویز کرتے ہیں جو ان کے مقاصد کی آبیاری کے لیئے ضروری ہوتی ہیں اور یہیں سے انہیں اذہان و قلوب پر اپنی اجارہ داری کا سکہ جمانے کا موقع میسرآجاتا ہے ۔ یہ وہ ثمر ہے جس کو حاصل کرنے کے لیئے اب کاروباری فرمیں ہوں یا سیاسی گروہ سرکاری ادارے ہوں یا حکومتیں اکثر نے اپنے اپنے سوشل میڈیا سیل تشکیل دیئے ہیں جو بیک وقت میڈیاپر نظر رکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ ایسا مواد تیار کر کے پیش کرتے رہتے ہیں جو ان کے اداروں کے مقاصد کو پورا کرنے کے ذریعہ بن جاتا ہے۔
سوشل میڈیا نئی نسل کا محبوب مشغلہ ہے دُنیا کے تجربات سے عادی اذہان و قلوب ہر سامنے آنے والی چیز کا فوری اثر قبول کرتے ہیں اور اس کے اثرات پر اپنے طرز عمل کو تشکیل دیتے اور فوری ردعمل کا ذریعہ بن جاتے ہیں یہی مواد زیادہ عمر کے افراد اگر دیکھتے ہیں تو فوری ردعمل دینے سے پرہیز کرتے ہیں کیونکہ ان کی زندگی کے تجربات و مشاہدات ان میں اس کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا کر چکے ہوتے ہیں۔ اس لیئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا یا آئندہ نسلوں کی ترجیحات قائم کرنے میں اہم عنصر کے طور پر سامنے آرہاہے۔ سوشل میڈیا کے اثرات پھر بھی محدود رہ سکتے تھے اگر سمارٹ فون کی شکل میں اسے امداد حاصل نہ ہوتی لیکن ہر شخص کے ہاتھ اور جیب میں اسمارٹ فون کی موجودگی نے ان اثرات کو فوری اور کئی گنا بڑھانے میں معاونت فراہم کی ہے،اسمارٹ فون میں کیمرے کی فراہمی اور سوشل میڈیا کی مختلف ایپلیکیشنز کی موجودگی نے ہرناظر کو متاثر ہونے اور متاثر کرنے کی دونوں صلاحتیوں کا حامل بنا دیا ہے، اس وجہ سے ایک فرد اس صلاحیت کو استعمال کر کے معاشرے پر فوری اثر پذیری کے قابل صلاحیت کا حامل ہوگیا ہے۔
سوشل میڈیا اب ہماری زندگیوں میں داخل ہو چکا ہے اس کو دیس نکالا دینا ممکن نہیں جبکہ اس کے بہت سے مفید پہلو بھی موجود ہیں جنہیں استعمال کر کے معاشروں کی تشکیل نو اور ذہنوں کی آبیاری کا کام لیا جاسکتا ہے۔ وہ افراد،ادارے اور مقامات جہاں عام آدمی کی پہنچ ممکن نہ تھی وہاں اپنی آواز کو پہنچانا، اپنے پیغام کی دسترس میں لانا اور انہیں رد عمل دینے پر مجبور کرنے کاکام سوشل میڈیا سے اب نسبتاً سہل ہوگیا ہے ۔ خاص طور پر تیسری دنیا کی حکومتیں جو عوامی مسائل سے غافل رہتی ہیں انہیں ان مسائل کے حل پر مجبور کرنے میں سوشل میڈیا مؤثر آواز ہے۔
نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے ہے، ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Comments are closed on this story.