Aaj News

اتوار, اپريل 27, 2025  
28 Shawwal 1446  

گورکھ ہل: سندھ کا خوبصورت سیاحتی مقام

اپ ڈیٹ 16 جنوری 2019 07:24am

gorakh

گورکھ ایک خوبصورت اور حسین مقام ہے۔ سندھ کے اس پہاڑ پر ، جو سطحِ سمندر سے پانچ ہزار چھ سو فٹ بلند ہے، سردیوں میں برفباری ہوتی ہے اور گرمیوں میں بھی اتنی سردی ہوتی ہے کہ لوگوں کو گرم کپڑے پہننے پڑتے ہیں۔ یہ شاید پچیس سال پرانی بات ہے، جب لیاقت علی جتوئی، سندھ کے وزیراعلیٰ تھے، ہم پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کی ٹیم کے ہمراہ ہیلی کاپٹر پر وزیر اعلیٰ کے ہمراہ گورکھ گئے۔ اس وقت اسے بڑے پیمانے پر ڈیولپ کرنے اور سندھ کے عظیم الشان سیاحتی مرکز میں تبدیل کرنے کا پروگرام تھا۔

وہ اس وقت بھی بہت خوبصورت علاقہ تھا، وہاں نہ کوئی سڑک تھی اور نہ ہوٹل اور نہ ہی ریسٹ ہاؤس۔ ہمارے ہیلی کاپٹر نے جیسے ہی وہاں لینڈ کیا اور ہم باہر نکلے تو جون کے مہینے کے باوجود میں سردی سے کپکپانے لگا۔ وزیراعلیٰ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور بولے کہ کیا سردی لگ رہی ہے۔ اور اپنے سیکرٹری کو اشارہ کیا اور مجھے فوری طور پر ایک جیکٹ دے دی  گئی ،کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہاں مئی جون میں سردی ہوتی ہے۔

گورکھ ہل اسٹیشن دادو کے شمال مغرب میں 94کلومیٹر دور کیرتھر پہاڑ وں میں واقع ہےاور کراچی سے 423کلومیٹر دور ہے ۔ سڑک کے راستے وہاں پہنچنے میں تقریباً آٹھ گھنٹے لگتے ہیں،اب وہاں ہزاروں سیاح ہرسال جاتے ہیں۔

گورکھ براہوی زبان کا لفظ ہے، گورک کے معنی بھیڑیے کے ہیں۔ اس ہل اسٹیشن کی تاریخ اور دیگر امور کے بارے میں مختلف قسم کی باتیں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ برسہا برس قبل ایک ہندو جوگی سری گورکھ ناتھ جی ان پہاڑوں اور اس علاقے میں کافی عرصے رہے تھے۔ سنسکرت کے ایک ماہر نندو کے مطابق گورکھ سنسکرت کا لفظ ہے ، جس کے معنی چرواہا ہیں۔

پہ بھی پڑھیئے:  سونامی کی میڈیا کوریج

مشہور محقق اور مؤرخ تاج صحرائی نے اپنی کتاب منچھر جھیل میں لکھا ہے کہ گورکھ کا نام جین ازم کے چوبیس تیرتھ کرن میں سے ایک ہے اور اسے گرو گورکھ ناتھ کے نام پر گورکھ کہا جاتا ہے۔ جس نے گیارہویں صدی عیسوی میں وہاں شیوا جی کا مندر تعمیر کیا تھا۔ تاج مزید لکھتا ہے کہ تقسیم ہند سے قبل ہندو یاتری اور یوگی تیرتھ کومب جاتے ہوئے اس پہاڑی چوٹی پر آیا کرتے تھے۔ ایک پہاڑی چوٹی پر چشمے کے قریب ایک چھوٹا سا مندر ہے۔ ہندو اس مندر اور چشمے کی زیارت کرنے آتے اور پوجا پاٹ کیا کرتے تھے۔ تاج صحرائی نے یہ ساری باتیں کسی حوالے کے بغیر کہی ہیں۔

بہرحال علاقے میں کسی مندر کے کوئی آثار نہیں۔ البتہ میانداد فقیر کی ٹوٹی پھوٹی قبر ضرور موجود ہے۔ نہ تو علاقے میں کوئی مندر ہے اور نہ ہی تاریخ سے ہندو یاتریوں کی آمد کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ گورکھ کا شمار سندھ کے چند بلند ترین مقامات میں ہوتا ہے، جو ڈھائی ہزار ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اپنے

سرد موسم اور خوبصورت مناظر کی وجہ سے فطرت سے پیار کرنے والوں کے لئے بے پناہ کشش رکھتا ہے۔دوستوں اور اپنے خاندانوں کے ساتھ جانے کے لئے گورکھ بہترین مقام ہے۔

کراچی یا سیہون سے گورکھ تک جانے کے لئے نہ تو ٹرانسپورٹ کا باقاعدہ انتظام ہے اور نہ ہی وہاں ہوٹل ہیں اور نہ ہی حکومت کے ذمہ دار اداروں نے وہاں شجرکاری کرکے بڑے پیمانے پر درخت لگائے ہیں۔ اگرچہ وہاں پچیس چھبیس سال سے کام کرنے کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ مگر اب تک دادو سے گورکھ تک ایک سڑک تعمیر کی گئی اور گورکھ میں ایک ریسٹ ہاؤس تعمیر ہوا۔ نہ تو نجی شعبے نے اس کی تعمیر و ترقی اور سیاحت کے فروغ میں دلچسپی لی۔ اسی وجہ سے کراچی کے شہری بڑے پیمانے پر وہاں نہیں جاسکے، حالانکہ کراچی والے سیاحت کے بہت متوالے ہیں۔

یہ بھی پڑھیئے: کراچی انٹرنیشنل بُک فئیر

سیاح ہل اسٹیشن تک جانے کے لئے سیہون سے اپنی ٹرانسپورٹ کا انتظام کرتے ہیں ۔ اسی طرح بہت سے لوگ کراچی سے اپنی یا کرائے کی ٹرانسپورٹ پر وہاں جاتے ہیں۔ کئی ٹور ازم کمپنیاں کراچی سے گورکھ تک ٹورز کا اہتمام کرتی ہیں۔ لیکن وہ پورے ٹور کے بہت زیادہ پیسے وصول کرتی ہیں۔ گورکھ ہل اسٹیشن میں لوگ راتوں میں الاؤ روشن کرکے موسیقی وغیرہ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

گورکھ ہل سے قبل آخری قصبہ واہی پاندی ہے، جو کیرتھر پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ہے۔کیرتھر پہاڑ کے سندھ میں واقع سلسلے میں سطح سمند ر سے ساڑھے پانچ ہزار فٹ بلند بہت سی چوٹیاں ہیں۔ اور سات ہزار فٹ بلند شدّ ن شاہ کی چوٹی کی دریافت سے قبل '' کتے جی قبر '' نام کی چوٹی سب سے بلند تھی، یعنی چھ ہزار آٹھ سو پچاس فٹ (6850)۔ اب یہ سندھ کو دوسری بلند ترین چوٹی ہے۔ اس چوٹی کو دریافت کرنے والے شدن شاہ نے سات ہزار ۵۶ فٹ بلند اس چوٹی کو شہید بے نظیر بھٹو سے موسوم کرتے ہوئے اسے کوہِ بے نظیر کا نام دیا ہے۔

گورکھ وہ مقام ہے، جہاں پریوں اور تتلیوں کا بسیرا ہے، بہت سے متوالے وہاں پہنچتے ہیں۔ لیکن ان میں اکثریت کراچی سے جانے والوں کی ہوتی ہے۔ ان لوگوں کی جو تفریح کے نئے مقامات کی تلاش میں رہتے ہیں۔

.نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے ہے، ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں