Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

ڈائپر کے نقصانات: کیا نیپیاں مردانہ بانجھ پن کا باعث بنتی ہیں؟

دنیا بھر میں گزشتہ چند سالوں سے ڈسپوز ایبل ڈائپرز کا بے تحاشہ استعمال شروع ہوگیا ہے۔ مہنگے ہونے کی وجہ سے کئی والدین...
شائع 13 دسمبر 2018 05:17am

Untitled-1

دنیا بھر میں گزشتہ چند سالوں سے ڈسپوز ایبل ڈائپرز کا بے تحاشہ استعمال شروع ہوگیا ہے۔ مہنگے ہونے کی وجہ سے کئی والدین ان ڈائپرز اور نیپیوں کو ایک بار بچے کو باندھنے کے بعد گھنٹوں دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے، جس کی وجہ سے بچوں کے نازک اور حساس اعضاء کے گرد خارش کے امراض جنم لیتے ہیں۔

متعدد ممالک میں ڈائپرز کے غیر صحت مندانہ استعمال اور ان سے بچوں کی صحت پر مرتب ہونے والے مضر اثرات پر بحث کی جارہی ہے ۔ ذیل میں ہم آپ کو ان ڈائپرز سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے بارے میں بتارہے ہیں:

نیپیوں اور ڈائپرز کے حوالے سے برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی رپورٹ نے حیرت انگیز انکشاف کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک سے تین سال کا عرصہ بچوں کی نشونما کیلئے اہم ہوتا ہے۔ بچوں کو پلاسٹک کی یہ نیپیاں پہنا دینے سے ان کی نازک اور حساس جلد پر مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔

قدرت نے ہر انسان کی جلد کو بیرونی ماحولیاتی اثرات سے بچانے کیلئے ایک حفاظتی روغنی تہہ  Stratum corneum بنائی ہے۔ پلاسٹک کے ڈائپرز اس تہہ کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ پیدائش کے چند دنوں بعد اگر ڈائیپر باندھ دیا جائے تو بڑی تیزی سے بچے کی جلد کی یہ حفاظتی تہہ برباد ہونے لگتی ہے۔

پیدائش کے پانچویں ماہ بچے کو ماں کے دودھ کے ساتھ ساتھ ٹھوس غذا دینے سے بچے کے فضلے کی کیمیائی ترکیب میں تبدیلی واقع ہوتی ہے ۔

ڈائپرز کی شکل میں بچوں کے جسم کے ساتھ غلاظت کا ایک تھیلا گھنٹوں بندھے رہنے سے بچے کے فضلے سے خارج ہونے والے  Lipases اور  Proteasesنامی اجزاء پیشاب کے ساتھ کیمیائی عمل کرتے ہیں، جس کی وجہ سے بچے کے نازک اعضاء پر سرخ دھبے ابھرنے کے ساتھ ساتھ سرخ دانے بھی نکل آتے ہیں۔

دودھ پلانے والی وہ مائیں جن کی غذا میں ٹماٹر اور اس سے بنی ہوئی دیگر غذائیں شامل ہوتی ہیں ۔ ڈائپر کے زیادہ استعمال سے ایسی ماؤں کے بچوں کے نازک اعضاء کے علاوہ سرخ دانے اور دھبے پھیلتے ہوئے پیٹ تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔

جرمنی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق رفع حاجت محسوس  Toilet Trainedہونے تک ایک بچہ بڑی تعداد میں نیپیاں استعمال کر لیتا ہے۔ ڈسپوزایبل ڈائیپرز اور نیپیوں میں کاغذ کی تہوں میں کیمیائی مادہ ڈائی اوکسن  Dioxinبھی ہوتا ہے۔

ڈائی اوکسن ایک انتہائی خطر ناک کیمیائی مادہ ہے۔ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کے جلنے سے ان کا اخراج بھاری مقدار میں ہوتا ہے جو کینسر کا باعث بنتا ہے۔ ڈائیپرز پہننے والے بچوں کی حساس اور نازک جلد کو ڈائی اوکسن سے سخت خطرات لاحق رہتے ہیں، بچوں کی نازک اور حساس جلد کے ذریعے ڈائی اوکسن کے جسم میں سرایت کرنے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔

بی بی سی نیوز آن لائن کی ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی میں ہونے والی تحقیق سے یہ پتہ چلا ہے کہ پو لیتھین کے بعض ڈسپوزایبل ڈائیپرز بچوں میں مردانہ بانجھ پن  Male Infertilityکا سبب بن رہے ہیں ۔

جرمنی کی یونیورسٹی آف کیل کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے ڈائپیرز استعمال کرنے والے معصوم بچوں کے خصیوں  Testicalesکے گرد درجہ ء حرارت میں اضافہ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ان کو بچپن ہی میں مردانہ بانجھ پن کا روگ لگ سکتا ہے ۔

بیشتر یورپی اور امریکی ممالک میں تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ پلاسٹک کی تہہ والی نیپیاں اور ڈائیپرز پہننے والے اکثر بچے خصیوں کے سرطان  Testicular Cancerمیں بھی مبتلا ہوئے۔

اس لئے ڈائپرز اور نیپی کا استعمال مکمل طور پر ترک کرنے کے بجائے اعتدال کے ساتھ کیا جائے ،بچوں کی نیپی کی باقاعدگی سے تبدیلی کرنا بہت ضروری ہے ۔

بچہ دن میں متعدد بار عموماً ہر ایک سے تین گھنٹے کے بعد پیشاب کردیتا ہے اس لئے پورے دن میں آٹھ سے دس مرتبہ اس کی نیپی کوبدلنا چاہیے ۔

بھیگ جانا بچوں کے لئے بہت زیادہ معنی نہیں رکھتا اس لئے آپ نیپی بدلنے کے لئے ہر دفعہ بچے کے رونے کا انتظار نہ کریں۔ ہر گھنٹے دو گھنٹے کے بعد بچے کی نیپی میں دیکھتے رہیں کہ کہیں بچے نے پیشاب تو نہیں کیا۔ پیشاب اور فضلے کے جراثیم کی وجہ سے بچے کو خارش ہو سکتی ہے جس کا نتیجہ نیپی ریش ہوتا ہے۔ ہر کھانے سے پہلے یا اس کے بعد، یا اس وقت جب اس نے رفع حاجت کی ہو، بچے کی نیپی کو تبدیل کردیں۔ صرف رات میں نیپی نہ بدلیں کیونکہ اس سے بچے کی نیند خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔

ماہرین نے کہا ہے وہ مائیں جو گھریلو خواتین ہیں دن کے اوقات میں کوشش کریں کہ بچوں کو ڈائپر کے بجائے کپڑا استعمال کروائیں۔ ماہرین کی رائے میں گھر میں استعمال کیا جانے والا کپڑا زیادہ مناسب اور محفوظ ہے، کیوں کہ عام طور پر ململ یا سوتی کپڑے کی مدد سے تیار کئے جانے والے یہ گھریلو ڈائپرز ایک بار استعمال کے بعد دھوئے جاتے ہیں ۔

ایسے میں ان میں جراثیم کی موجودگی کے امکانات ختم یا کم ہوجاتے ہیں۔ نیز جہاں تک ان کے نسبتاً کم جاذب ہونے کا سوال ہے تو گھریلو خواتین کیلئے دن کے اوقات میں کپڑے کا استعمال اتنا مشکل نہیں۔

اس حوالے سے ماہرین نے مزید مشورہ دیا ہے کہ گھریلو طور پر استعمال سے قبل کپڑوں پر گرم استری پھیری جائے تو ان میں موجود کئی جراثیم کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

بشکریہ Being The parent