پاکستانی سیاست کے مشہور ترین بوسے
پاکستانی کی سیاسی جماعتوں کے کارکن پارٹی قیادت سے محبت کا اظہار کرنے کیلئے کئی طرح انداز اپناتے ہیں۔
اس مرتبہ الیکشن قریب آتے ہی ایک میٹھی میٹھی رومان پرور فضاء چل پڑی ہے اور ہر طرف بوسوں کی بارش ہورہی ہے۔ اس فضاء سے پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن کافی متاثر نظر آتے ہیں، جو اپنے قائد یا لیڈر کو دیکھتے ہی ان کا منہ چومنے کیلئے اتاولے ہوجاتے ہیں۔
جبکہ پارٹی لیڈران بوسوں کے ان اچانک ڈرون حملوں سے کافی محتاط نظر آتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کب کون کہاں سے کس گال پر ایک "چمّی" ثبت کرجائے۔ بات کریں بلاول کی تو ان کے چہرے کی معصومیت دیکھتے ہی ان پر پیار آتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی جیالا فرط جذبات پر بندھے بند کو توڑتے ہوئے ایک عدد بوسہ جڑ دے تو کوئی بعید نہیں۔
یاد ماضی عذاب ہے یارب، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔۔۔
لیکن حیرت تو اس وقت ہوئی جب ایسا ہی ایک واقعہ خورشید شاہ کے ساتھ پیش آیا جب ایک جیالے نے اپنی محبت کا اظہار کرنے کیلئے ایک پپّی انہیں بھی چپکا دی۔ خورشید شاہ اس موقع پرپرستار سے جان چھڑوانے کیلئے ادھر ادھر ہوتے رہے لیکن جیالے نے چہرہ چوم ہی لیا۔ اس موقع پربعض کارکنان نے اس جیالے کوروکنے کی کوشش بھی کی۔ بوسہ لینے پرخورشید شاہ نے جیالے سے اکتاہٹ کا اظہار بھی کیا۔
اس سے قبل چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے عبداللہ شاہ غازی کے مزار پرحاضری دی تواس موقع پرایک جیالے نے انہیں بھی نہ بخشا اور دے ڈالی ایک عدد۔۔۔ سمجھ تو گئے ہوں گے آپ۔ بلاول نے بھی نے جیالے کے بوسے سے بچنے کی بہت کوشش کی لیکن اس کے باوجود ان کی بھی لے لی گئی "پپّی"۔
بات صرف پیپلز پارٹی اور ان کے کارکنوں تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کچھ مشہور بوسے بھی موجود ہیں جنہوں نے کافی پذیرائی حاصل کی۔
نواز شریف اور شیخ رشید کو آج کی نسل ایک دوسرے کا دشمن سمجھتی ہے، لیکن ایک واقت ایسا تھا جب ان دونوں حکمرانوں کا سیاسی رومانس عروج پر تھا۔
وہ مصطفی کمال جو آج ایم کیوایم کے بانی اور موجودہ ایم کیو ایم لندن کے سربراہ (قائد تحریک) کو برا بھلا کہتے ہیں، ایک وقت تھا جب ان کے سب سے بڑے فین تھے۔ مصطفیٰ کمال اپنے ماضی میں بانی ایم کیو ایم کے دفاع کیلئے لڑتے رہے ہیں اس لئے ایک موقع پر انہیں لندن میں اعزازی "چمّی" سے بھی نوازا گیا۔
یعنی کہ ۔۔۔ ایک پپی اِدھر، ایک پپی اُدھر۔۔
ایسا نہیں کہ صرف نواز شریف کو بوسہ ملا ہی ہے، بلکہ انہوں نے خود بھی بوسے دئے ہیں۔
ویسے تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں کہ شیخ رشید کو بوسے لینا کتنا پسند ہے، لیکن جب انہیں بوسہ دینے کی باری آئی تو ان کا رد عمل کافی غصیل تھا۔ شاید بے چارے چاہنے والے کی پپی ہی گیلی تھی۔
خیر۔۔۔ قصور ان میں سے کسی کا بھی نہیں، نہ بوسہ لینے والوں کا نہ دینے والوں کا۔ قصور اس کیمرہ بردار شخص کا بھی نہیں جس کی بدولت آج یہ تحریر لکھنے کی نوبت آئی۔ بات تو ساری یہ ہے کہ پاکستان کی ہوا میں ہی محبت ہے اور جب تک یہ فضاء قائم ہے، بوسہ کناریاں تو چلتی ہی رہیں گی۔
Comments are closed on this story.