Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

کتّوں کی غذا بننے والی بنی اسرائیل کی حسین و مغرور ملکہ

شائع 30 اپريل 2018 08:27am

Untitled-1

حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں بنی اسرائیل کی سلطنت عروج پر تھی۔ آپ علیہ السلام کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے احبام کے دور میں سلطنت دو حصوں میں بٹ گئی۔ جنوبی فلسطین میں یہودیہ نام کی ایک سہلطنت قائم ہوئی جبکہ شمالی فلسطین میں اسرائیل کے نام سے ایک ریاست کا قیام ہوا۔

ان دنوں سیدہ یعنی موجودہ لبنان کی شہزادی ایزابیل کی خوبصورتی کے چرچے چہار سو عام تھے۔ چنانچہ اسرائیل کا بادشاہ جس کا نام اخیب تھا اس سے شادی کرکے اسرائیل لے آیا۔

ان دنوں لبنان اور شام میں بعل کی پوجا کی جاتی تھی۔ بعل فنیقی اقوام کا ایک قدیم دیوتا تھا۔ اخیب اول درجے کا زن مرید ثابت ہوا اور اپنی ملکہ ایزابیل کے کہنے میں آکر بعل کی بوجا شروع کردی۔ اخیب نے اسرائیل کے صدر مقام سامریہ میں بعل کا بہت بڑا اور عالیشان مندر تعمیر کیا۔

اس کو دیکھ کر اس کی رعایا بعل دیوتا کی پوجا کرنے لگی۔ اس طرح سامریہ شہر کا نام 'بعلبک' یعنی بعل کا شہر پڑگیا۔  پورے ملک میں بعل کی عبادت گاہیں تعمیر ہو گئیں اور اسکے نام پر قربانیاں دی جانے لگیں، اور یوں یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بتائے ہوئے دین سے منحرف ہوگئے۔

ایسے وقت میں بھی چند اللہ والے لوگ تھے جو لوگوں کو برے کاموں سے روکتے اور اللہ تعالٰی کی طرف بلاتے۔ انہی حضرات میں ایک نیک بزرگ یرمیہ بھی تھے۔

بعرل کی پوجا کے ایک خاص دن ملکہ ایزابیل اور بادشاہ اخیب بعل کے مندر میں موجود تھے اور پوجا زور شور سے جاری تھی، تب یرمیہ اخیب کے پاس آئے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ بت پرستی چھوڑ کر اپنے دین حق کی طرف لوٹ آئے۔

اخیب تو اس بات پر خاموش رہا مگر ملکہ ایزابیل پوجا میں خلل ڈالنے پر بھڑک اٹھی، اور اپنے سپاہی کا نیزہ لے کر حضرت یرمیہ کے سینے میں گھونپ دیا۔ آپ ایک دل خراش آہ کے ساتھ زمین پر گر گئے، مگر آپ کی نظریں بدستور ایزابیل پر جمی رہیں۔

آپ نے مرنے سے پہلے ایزابیل سے کہا کہ تو نے مجھے حق گوئی کی پاداش میں مار ڈالا ہے، اب تو انتطار کر جب تو اسی طرح ماری جائے گی۔ اور جنگلی کتے تیرا گوشت نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ اس کے بعد زن مرید اخیب اور ایزابیل وہاں سے چلے گئے۔

اس واقعے کے بعد اہل ایمان کے حوصلے کافی پست ہو چکے تھے۔ وہ دیکھ چکے تھے کہ ایزابیل کا ان کے بادشاہ پر کتنا اثر ہے۔ وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مغرور اور سفاک تھی۔ صرف ایک عورت نے پورے بنی اسرائیل کو بت پرستی کی راہ پر ڈال دیا تھا۔

اس کے بعد اللہ تعالٰی نے حضرت الیاس علیہ السلام کو بنی اسرائیل پر نبی مبعوث کیا۔ حضرت الیاس جیلات شہر کے رہنے والے تھے۔ بائبل میں آپ کا تذکرہ ایلیا کے نام سے موجود ہے۔ آپ سامریہ میں اخیب کے دربار میں تشریف لے گئے اور اسے سمجھانے کی کوشش کی، لیکن اخیب اور اس کی بیوی نے آپ کی ایک نہ سنی اور کہا کہ اب عظیم بعل ہی ہمارا دیوتا ہے۔

یہ سن کر آپ وہاں سے سرزمین عرب کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں تبلیغ کرنے لگے۔ لیکن آپ کے جانے کے بعد سامریہ میں بارش تو دور اوس تک پڑنی بند ہوگئی۔ بعل کے نام پر خوب چڑھاوے اور قربانیاں دی گئیں مگر نتیجہ بے سود۔ قحط اتنا بڑھ گیا کہ لوگ لوٹ مار پر اتر آئے، یہاں تک کہ بادشاہ کے محل کا گھیراؤ کر لیا اور اس کے کچھ حصوں کو آگ لگا دی گئی۔

 اب بادشاہ انتہائی پریشان ہوا اور حضرت الیاس کو ڈھونڈ کر ان سے بارش کیلئے دعا کی درخواست کی۔ لیکن یہ بات ایزابیل اور بعل کے پجاریوں کو ناگوار گزری اور وہ حضرت الیاس علیہ السلام کی مخالفت پر اتر آئے۔ حضرت الیاس نے تجویز پیش کی کہ تم اپنے معبود بعل کے نام کی قربانی دو اور میں اللہ کے نام کی قربانی دوں گا۔

جس کی قربانی قبول ہوگی اسی کے معبود سے بارش کیلئے دعا کی جائے گی اور دوسرے فریق کو سزائے موت دی جائے گی۔ اس زمانے میں دستور یہ تھا کہ قربانی کا جانور ذبح کرکے ایک میدان میں چھوڑدیا جاتا۔ قبولیت کی نشانی یہ تھی کہ غیب سے ایک آگ نمودار ہوکر قربانی کے جانور کو جلا دیتی تھی۔

غیبی آگ نے حضرت الیاس علیہ السلام کی قربانی کو جلاکر راکھ کردیا۔ یہ دیکھ کر بادشاہ کے اوپر لرزہ طاری ہوگیا۔ اس نے حضرت الیاس علیہ السلام سے معافی مانگی اور پجاریوں کے قتل کا حکم دے دیا۔ یہ دیکھ کر حضرت الیاس علیہ السلام نے اللہ کے حضور بارش کی دعا کی، دعا قبول ہوئی خوب بارش برسی اور خوشحالی لوٹ آئی۔

اخیب محل لوٹا تو ایزابیل نے اسے دوبارہ گمراہ کردیا اور دونوں حضرت الیاس علیہ السلام کی جان کے دشمن بن گئے اور یہ ملک دوبارہ بت پرستی، شراب نوشی، زنا اور دیگر برائیوں کا مرکز بن گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ یہودیہ میں بھی بت پرستی عام ہوگئی، جس کی وجہ ایزابیل کی بیٹی تھی۔ جس کی شادی یہودیہ کے بادشاہ یہورام سے پوئی تھی۔ یوں یہورام اور اس کے ساتھ پورا فلسطین بعل پرست بن گیا۔ حضرت الیاس علیہ السلام نے انہیں سمجھانے کی آخری کوشش کی، لیکن یہورام اور اخیب دونوں نے آپ کی بات حقارت سے ٹھکرادی۔

اب عذاب کی باری تھی، اسرائیل اور یہودیہ کی سرحد پر کچھ وحشی قبائل آباد تھے۔ جو کبھی کبھی سرحدوں پر لوٹ مار کیا کرتے۔ وہ اتنے طاقتور ہوگئے تھے کہ انہوں نے یہودیہ پر چڑھائی کردی۔ سارے شہر میں لوٹ مار کرکے آگ لگا دی گئی۔ ایزایبیل کی بیٹی کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ یہودیہ کے بادشاہ یہورام نے چھپتے چھپاتے ایک غار میں پناہ لی، جہاں اسے ایسی بیماری لاحق ہوگئی کہ اس کی آنتیں اس کے جسم سے باہر نکل آئیں۔

پھر انہیں وحشی قبائل نے اسرائیل کا رخ کیا اور سارے شہر کو تخت و تاراج کردیا۔ اخیب اور اسکے بیٹے کو قتل کردیا گیا جبکہ ملکہ ایزابیل جسے اپنی طاقت کا غرور تھا، جب وہ مری تو اس کے جسم میں ایک نیزا پیوست تھا۔ پھر لوگوں نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا کہ بہت سارے جنگلی کتے اس کی لاش نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔

یہ وہی بددعا تھی جو بزرگ یرمیہ نے اپنی شہادت کے وقت ایزابیل کو دی تھی۔ اس کی موت کے وقت نہ تو اس کا دیوتا کام آیا ، نہ لشکر اور نہ ہی حسن۔