Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

علامہ اقبال کا آخری سفر: انتقال سے تدفین تک

اپ ڈیٹ 21 اپريل 2018 07:56am

Untitled-1

لاہور:شاعر مشرق ،حکیم الامت  اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کا 80واں یوم وفات آج عقیدت واحترام کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے یوم وفات کے حوالے سے علامہ اقبال کے ایک قریبی سیاسی رفیق محترم عاشق حسین بٹالوی کی ایک تاریخی تحریر پیش کی جارہی ہے۔

عاشق حسین لکھتے ہیں، علامہ اقبال کے جیتے جی ان سے میری ملاقات آخری 14اپریل 1938 ءکو دن کے گیارہ بجے جاوید منزل میں ہوئی تھی۔ وہ بیمار تھے اور پلنگ پر لیٹے آرام کر رہے تھے۔ ٹھیک یاد نہیں کہ پلنگ کمرے کے اندر تھا یا برآمدے میں۔ 33 سال گزر چکے ہیں۔ بعض باتیں ذہن سے اتر گئی ہیں۔ ہوا یوں کہ 17، 18 اور 19 اپریل کو کلکتہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ہونے والا تھا اور ہم یعنی ملک برکت علی،خلیفہ شجاع الدین، ملک زمان مہدی، غلام رسول خاں، پیر تاج الدین اور راقم التحریر شرکت کے لیے 14 کی شام کو کلکتہ جا رہے تھے۔ روانگی سے پہلے غلام رسول خاں، ملک زمان مہدی اور راقم التحریر علامہ کی خدمت میں حاضرہوئے۔ ملک برکت علی پہلے سے وہاں موجود تھے۔

ایک ہفتہ قبل نواب زادہ لیاقت علی خان مرحوم نے باضابطہ اطلاع دی تھی کہ پنجاب پراونشل مسلم لیگ کا الحاق مرکزی لیگ سے منقطع کر دیا گیا ہے۔ یہ قدم ایک معمولی سے ٹیکنیکل نکتے کی آڑ لے کر اٹھایا گیا تھا جس سے علامہ اقبال مرحوم کو سخت صدمہ ہوا تھا۔ بیماری اور نقاہت کے باوجود انہوں نے مسلسل دو سال مسلم لیگ کی تنظیم و تشکیل پر محنت کی تھی اور انجام یہ نکلا۔

علامہ دل برداشتہ تھے کہ ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوا۔ تاہم انہوں نے اس ملاقات میں غلام رسول خاں سے کہا کہ کلکتہ ضرور جاﺅ اور اپنے حق کے لیے آخر تک لڑو۔ ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔

ملک برکت علی نے عرض کیا کہ اگر الحاق کے بارے میں ہماری نئی درخواست بھی منظور نہ ہوئی تو پھر کیا ہو گا۔ علامہ نے فرمایا۔ کچھ فکر نہیں۔ درخواست منظور ہو یا نامنظور۔ جس اصول پر ہم نے اب تک کام کیا ہے آئندہ بھی جاری رہے گا۔

کلکتہ کے اجلاس سے فارغ اور اپنے مقصد میں ناکام ہو کر ہم 19 اپریل کو شام کو واپس روانہ ہوئے اور 21 کی صبح 9 بجے لاہور پہنچے۔ ابھی گاڑی پلیٹ فارم پر اچھی طرح رکنے بھی نہ پائی تھی کہ ہم نے اخبار فروش لڑکے کو چلاتے ہوئے سنا جو پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ ڈاکٹر اقبال فوت ہو گئے۔ اس خبر سے ہم پر بجلی سی گر گئی اور تمام ساتھی دم بخود پریشان ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔

اسٹیشن سے باہر آکر فیصلہ یہ ہوا کہ جاوید منزل چلنا چاہیے۔ وہاں پہنچے تو صحن میں ایک ہجوم تھا۔ بعض لوگ چپ چاپ کھڑے تھے۔ بعض رو رہے تھے۔ میں نے مجمع کو چیر کر اندر دیکھا تو علامہ ابدی نیند سو رہے تھے۔ جسم اطہر سپید چادر سے ڈھکا ہوا تھا اور سرہانے ان کے فرزند اکبر آفتاب اقبال سر پر مشہدی لنگی باندھے گردن جھکائے خاموش بیٹھے تھے۔

لوگوں میں ہر لمحہ اضافہ ہونے لگا۔ تو دیکھتے دیکھتے صحن بھر گیا۔ ہم لوگ کلکتہ کے طویل سفر سے واپس آئے تھے اور تھکے ہوئے تھے۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ بادشاہی مسجد کے قریب دفن کرنے کا پروگرام بن رہا ہے اور گورنر سے اجازت حاصل کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہے کیونکہ بادشاہی مسجد محکمہ آثار قدیمہ کی تحویل میں تھی۔

میں واپس مکان پر آگیا اور 4 بجے پھر جاوید منزل حاضر ہوا تو کوٹھی کے اندر اور باہر سڑک پر خلقت ہی خلقت تھی۔ ایک سوگوار زائر کی طرح میں بھی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا برآمدے تک پہنچ گیا۔ کم و بیش ہر شخص سے واقفیت تھی لیکن آج ربع صدی سے زیادہ مدت گزر جانے کے بعد جن چند اصحاب کے نام یاد رہ گئے ہیں ان میں ملک برکت علی ، غلام رسول خان، ڈاکٹر محمد عالم، ڈاکٹر ممتاز حسن، سید نذیر نیازی، سید سلامت اللہ، راجہ حسن اختر، محمد اسماعیل نعیم، خواجہ تاج الدین، بخشی سرٹیک چند، ڈاکٹر گوکل چند نارنگ، جسٹس دین محمد، مولانا غلام رسول مہر، پیر تاج الدین، سید حبیب ، حکیم احمد شجاع وغیرہ موجود تھے۔

چاروں طرف سے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ اتنے میں جنازہ اٹھا اور ہم جاوید منزل سے بادیدہ گریاں و باسینہ بریاں رخصت ہوئے۔ پہلے یہ فیصلہ سننے میں آیا کہ نماز جنازہ اسلامیہ کالج کی گراﺅنڈ میں پڑھائی جائے گی۔ چنانچہ رخ اسلامیہ کالج کی طرف ہو گیا۔ جنازے کے آگے آگے سید حبیب صاحب بلند آواز میں کلمہ طیبہ کا ورد کر رہے تھے۔ مجلس اتحاد ملت کے نیلی پوش رضاکار بھی دو دو کی قطاروں میں چل رہے تھے۔

اسلامیہ کالج پہنچے تو گراﺅنڈ میں تابوت رکھ دیا گیا۔ نماز کے لیے صفیں کھڑی ہو گئیں۔ ہندو اور سکھ (غالباً چند انگریز) اصحاب کالج کے برآمدے میں خاموش بیٹھ گئے۔ اتنے میں یک لخت کسی نے آواز لگائی کہ نماز بادشاہی مسجد میں پڑھی جائے گی تاکہ شہر کے باشندے بھی شریک ہو سکیں۔ اٹھاﺅ جنازہ۔

اس کے ساتھ ہی صفیں ٹوٹنے لگیں اور مجمع منتشر ہو گیا۔ جسٹس دین محمد کو میں نے سخت غصے کے عالم میں یہ کہتے سنا کہ یہ کیا بے ہودگی ہے۔ نماز دوبارہ بھی تو پڑھی جا سکتی ہے۔ لیکن ہنگامے میں کون کسی کی سنتا تھا۔ نیلی پوش رضاکاروں نے پھر جنازہ اٹھایا۔ مجمع پریشانی اور بدحواسی کے عالم میں ریلوے روڈ پر آگیا۔ بخشی سرٹیک چند طالب علمی کے زمانے میں گورنمنٹ کالج میں اقبال سے دو سال پیچھے تھے۔ لیکن اقبال کی عظمت پہچاننے میں کسی مسلمان سے پیچھے نہ تھے۔ مجھ سے کہنے لگے۔ تمہیں تو اقبال کو دفن کرنا بھی نہیں آتا، تم اس کی قدر کیا پہچانو گے۔ چنانچہ غیر مسلم اصحاب تو وہیں سے رخصت ہو گئے۔

اس کے بعد ہم موچی دروازہ میں داخل ہوئے اور سارا گنجان شہر طے کرکے بادشاہی مسجد پہنچے۔ ہجوم قابو سے باہر ہو گیا تھا۔ شام بھی ہو چلی تھی۔ دکانیں بند ہوتی جا رہی تھیں۔ جنازے کے ساتھ ساتھ لمبے لمبے بانس باندھ دیے تھے کہ کندھا دینے میں آسانی ہو۔ اتنے میں ایک بانس ٹوٹ گیا۔ پھر سے اس کی مرمت کی گئی۔

-بادشاہی مسجد سے باہر حضوری باغ کے سامنے گیس کی روشنی میں قبر کھد رہی تھی۔ میں ہجوم سے کٹ کر مسجد کی سیڑھیوں کے قریب چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔ میں اقبال کے بہت معمولی نیاز مندوں میں تھا۔ البتہ ان کی زندگی کے آخری دو برسوں میں جب وہ پنجاب مسلم لیگ کے صدر تھے اور میں جائنٹ سیکرٹری تھا، ان سے نسبتاً زیادہ قرب رہا۔ ان دنوں صحت ان کی خراب تھی۔ دن بھر بستر پر لیٹے رہتے تھے لیکن ذہن اس وقت بھی صاف فکر، اس وقت بھی روشن اور نگاہ اس وقت بھی بلند تھی۔ بالآخر رات کی تاریکی اور گیس کی روشنی میں ان کے جسد خاکی کو لحد میں اتارا زور ہم واپس آئے۔

انیس سو چالیس میں اعلیٰ حضرت ظاہر شاہ بادشاہ افغانستان نے کابل کا بہترین سنگ مر مر بھیجا تو مزار کی تعمیر شروع ہوئی اور آج وہی مقبرہ زیارت گاہ خواص و عام ہے۔ جب روم و مصر و شام اور حجاز و ترکستان کے لوگ لاہور آکر مزار اقبال پر حاضری دیتے ہیں تو اقبال کی پیش گوئی یاد آتی ہے۔

اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو

لاہور سے تا خاک بخارا وسمرقند

لاہور کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ پھیلے پھیلتے کوٹ لکھپت تک چلا گیا ہے۔ آبادی بیس لاکھ ہو گئی ہے۔ جگہ جگہ ہر سال یوم اقبال کے جلسے ہوتے ہیں۔ اس کی شاعری کے وہ وہ نکتے بیان کیے جاتے ہیں جو خود اقبال کے ذہن میں بھی غالباً نہیں ہوں گے لیکن ان جلسوں، جلوسوں میں کتنے دانشور ہیں جنہوں نے اقبال کو دیکھا۔ اس کی محفل میں بیٹھے اور اس کی ہمہ گیر گفتگو سے فیض یاب ہوئے۔

میں اب کے انگلستان سے آیا تو محض اظہار عقیدت کے لیے ایک روز جاوید منزل چلا گیا۔ عزیزم جاوید اقبال نے بڑی محبت سے مجھے اپنے سجے سجائے ڈرائنگ روم میں بٹھایا تو میں نے وہ کمرہ دیکھنے کی خواہش کی جہاں علامہ فوت ہوئے تھے۔ جاوید صاحب وہاں لے گئے۔ لیکن یہ دیکھ کر مجھے تکلیف ہوئی کہ وہ کمرہ جھاڑ فانوس اور ریشمی چادروں سے آراستہ تھا۔ میں نے چاہا کہ عرض کروں کہ اس یادگار کمرے کی اصل روح تو وہ سادگی تھی جو مرحوم کی زندگی میں طاری تھی۔

کھڑکی سے قریب پلنگ تھا جس پر علامہ دن بھر لیٹے رہتے اور رات کو سوتے تھے۔ کھانا بھی یہیں کھاتے تھے۔ کل سازوسامان تین چار کرسیوں اور ایک تپائی پر مشتمل تھا۔ ملاقاتی آتے تو بے تکلفی سے یہیں بیٹھتے تھے۔ آخری دو برسوں میں علامہ کی زندگی سمٹ سمٹا کر اس کمرے میں محدود ہو گئی تھی۔ 21 اپریل کو صبح پانچ بجے اسی کمرے میں انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا تھا۔ مناسب تو یہی تھا کہ جاوید منزل کا یہ کمرہ اسی سادہ حالت میں محفوظ رکھا جاتا تاکہ مکان کے مکین کی زندگی کی ہلکی سی جھلک نظر آجاتی۔