Aaj News

جمعرات, ستمبر 19, 2024  
14 Rabi ul Awal 1446  

سپریم کورٹ نےنواز شریف ،جہانگیر ترین کوتاحیات نااہل قرار دیدیا

شائع 13 اپريل 2018 11:40am
فائل فوٹو فائل فوٹو

اسلام آباد:سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی مدت کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور پی ٹی آئی کے رہنماء جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دے دیا۔

جمعے کو سپریم کورٹ کے5رکنی بینچ نے متفقہ طور پر آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہونے والی نااہلی کی مدت کے حوالے سے فیصلہ سنایا۔

عدالت عظمیٰ کی جانب سے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نا اہلی تاحیات رہے گی، نااہل شخص اس وقت تک نا اہل رہے گا جب تک فیصلہ ختم نہیں ہوجاتا۔

آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت سے متعلق کیس کا فیصلہ جسٹس عمرعطا بندیال کی جانب سےتحریرکیا گیا ہے، فیصلے میں جسٹس عظمت سعیدشیخ کا اضافی نوٹ شامل کیا گیا ہے۔

جسٹس عظمت سعید شیخ کے مطابق آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت سے متعلق فیصلہ تمام ججزکا متفقہ ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 62 ون ایف شامل کرنے کا مقصد قوم کیلئے با کردار قیادت دینا ہے۔

عدالت عظمیٰ کی جانب سے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نا اہلی تاحیات رہے گی، نااہل شخص اس وقت تک نا اہل رہے گا جب تک فیصلہ ختم نہیں ہوجاتا۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 14 فروری 2018 کو آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت پر اٹارنی جنرل اشتراوصاف کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پرمشتمل بینچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی تھی۔

سپریم کورٹ نے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے میں کو نوا زشریف کو نااہل قرار دیا تھا، جس کے بعد وہ وزیراعظم کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے۔

بعدازاں عدالت عظمیٰ‌ نے 15 دسمبر 2017 کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء جہانگیر ترین  کو بھی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا تھا،اس شق کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں 13 مختلف درخواستیں دائر ہوئی تھیں،یہ درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ اراکینِ اسمبلی بھی شامل ہیں، جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنیاد پر نااہل کیا گیا۔

ان درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔

یال رہے کہ رواں سال 26 جنوری کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل ہونے والے اراکین پارلیمنٹ کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے سابق وزیراعظم نوازشریف اور پاکستان تحریک انصاف کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو ذاتی حیثیت میں یا وکیل کے ذریعے پیش ہونے کے نوٹسز جاری کئے تھے۔

نوازشریف نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کیلئے عدالتی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔

مسلم لیگ ن کے قائد نے 6 فروری کو سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا تھا جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ کئی متاثرہ فریق عدالت کے روبرو ہیں وہ ان کے مقدمے کو متاثرنہیں کرنا چاہتے۔