پلاسٹِک سے پہنچنے والا ماحولیاتی نقصان انسانوں کے لئے کتنا مضر ہے؟
پلاسٹِک، سائنس کی ایک حیرت انگیز ایجاد ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے سیارے کے لئے ایک سزا بھی ہے۔ دنیا میں پلاسٹِک کی پیداوار ہر سال تقریباً 300 ملین ٹن ہوتی ہے۔ جس میں سے ذیادہ تر حصہ کبھی ری سائیکل نہیں ہو پاتا۔ یہ ہماری زمین اور سمندر کی تہہ میں ہمیشہ کے لئے پڑا رہ جاتا ہے۔ آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ یہ پلاسٹِک دنیا میں موجود مخلوق کو کس طرح نقصان پہنچا رہی ہے۔ خاص کر وہ مخلوق جو غذا کے لئے آبی حیات پر انحصار کرتی ہے۔
پلاسٹِک دنیا بھر میں 300 ملین ٹن سے ذیادہ کی مقدار میں پیدا کی جاتی ہے۔ اس میں اربوں کی تعداد میں پلاسٹِک کی بوتلیں اور پانچ ارب پلاسٹِک کی تھیلیاں شامل ہیں۔ پلاسٹِک ہماری زندگی میں لازمی جز اس لئے ہے کہ یہ حیرت انگیز طور پر پائیدار ہے۔ لیکن پلاسٹِک خطرناک ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ حیرت انگیز طور پر پائیدار ہے۔
تاریخ میں پلاسٹِک سے بنا ایک ایک ذرہ کسی نہ کسی شکل میں زمین پر ابھی بھی موجود ہے۔ مثال کے طور پر، ہم پلاسٹِک کی تھیلی کو ایک سے دو مرتبہ استعمال کرتے ہیں اور کوڑے میں پھینک دیتے ہیں۔ سال 2050 تک جب دنیا کی آبادی تقریباً دس ارب لوگوں تک پہنچ جائے گی تب پلاسٹِک کی متوقع پیداوار اب سے تین گناہ ذیادہ ہوگی۔
خطرے کی بات یہ ہے کہ اتنی پلاسٹِک کا صرف کچھ حصہ ہی ری سائیکل ہوپاتا ہے۔ باقی ساری پلاسٹِک زمین اور سمندر کو کسی مرض کی طرح سالوں نقصان پہنچاتی رہتی ہے۔ سمندر میں پھینکا گیا کچرا اور فاضل مادے سمندری حیات کو بری طرح نقصان پہنچاتے ہیں۔ دنیا بھر میں تقریباً سو ملین ٹن مچھلی انسانوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ سمندری پرندے بھی اپنی غذا ان مچھلیوں کی صورت میں حاصل کرتے ہیں۔ یہ وہی مچھلیاں ہوتی ہیں جو سمندر کو آلودہ کرنے والی پلاسٹک کھا کر بیمار ہوچکی ہوتی ہیں۔
ایک ریکارڈ کے مطابق ایک سمندری پرندے کے پیٹ سے پلاسٹِک کے 276 ٹکڑے نکلے، جس کا وزن اس پرندے کے وزن کا 15 فیصد حصہ تھا۔ اس اعداد و شمار کو اگر انسانی اصطلاح میں دیکھا جائے تو انسان کے پیٹ میں 6 سے 8 کلو پلاسٹِک موجود ہو سکتی ہے۔
سال 2050 تک دنیا کے سمندر میں وزن کے لحاظ سے اتنی پلاسٹِک پائی جائے گی جتنی سمندر میں مچھلی موجود ہے۔ ہر ملک پلاسٹِک استعمال کرتا ہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس سے پہنچنے والے نقصان کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا ردوبدل سوچا جائے۔ پلاسٹِک پر پابندی لگانے والے ملکوں میں روانڈہ، چین اور تائیوان شامل ہیں۔ اگر ہم اپنے ملک میں فوراً اس بین کو لاگو نہیں کر سکتے تو کم از کم پلاسٹِک کا استعمال کم کر سکتے ہیں۔
Comments are closed on this story.