کیا آپ ریل کے موجد کی دلچسپ داستان سے واقف ہیں؟
کبھی آپ نے سوچا کہ ریلوے انجن کس نے، کب اور کس طرح ایجاد کیا تھا ؟
یہ کہانی اصل میں کام کے انعام کی بڑی اچھی مثال ہے۔ یہ انگلستان کے شمالی مشرقی علاقے سے شروع ہوتی ہے، جس میں نیو کاسل نام کی ایک بستی آباد ہے۔ وہاں میلوں تک کوئلے کی کانیں پھیلی ہوئی ہیں۔
اسی علاقے کے ایک گاؤں ویلام میں 1781ء میں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کے باپ کا نام رابرٹ اور ماں کا نام مابیل تھا۔ وہ دونوں بے حد غریب لیکن محنتی تھے۔
دنیا میں غربت اتنی بری چیز نہیں جتنی کاہلی اور سستی! سٹیفن سن کا باپ ایک کان میں کوئلہ ڈھونے کا کام کرتا تھا۔ بڑی مشکل سے گزر ہوتی تھی۔
گاؤں کے قریب کوئی سکول بھی نہیں تھا۔ اس لیے سٹیفن سن تعلیم بھی نہ پا سکا۔
وہ بچپن ہی سے کام کرنے لگا تاکہ گھر میں اور روپیہ آ جایا کرے۔ ان دنوں انگلستان کے دیہاتوں میں میلوں کا زور تھا۔
ایک مرتبہ جارج سٹیفن سن بھی اپنی چھوٹی بہن کو ساتھ لے کر میلے میں گیا۔ وہاں اس کی بہن کو ایک ٹوپی پسند آ گئی۔ وہ اسے خریدنا چاہتی تھی لیکن دونوں کے پاس اتنے دام نہیں تھے کہ اس کی قیمت ادا کر دیتے۔
سٹیفن سن کو اپنی چھوٹی بہن کو اس طرح مایوس دیکھ کر رنج ہوا اور پہلی مرتبہ اس نے غربت کے کانٹے کی چبھن کو محسوس کیا۔ سٹیفن سن نے اپنی بہن سے کہا 'تم یہاں ٹھہرو، میں ابھی دام لاتا ہوں۔' یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور شام کے قریب جب اندھیرا ہو رہا تھا تو دوڑتا ہوا واپس آیا اور بہن کو وہ ٹوپی خرید دی۔
بہن نے بھائی سے پوچھا تم یہ دام کہاں سے لائے؟ اس نے کہا 'لوگوں کے گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتا رہا اور مزدوری حاصل کی۔'
جارج بچپن ہی سے اپنے باپ کے ساتھ کوئلے کی کان پر جایا کرتا تھا اور وہاں کام کرتے انجنوں کو بڑے غور سے دیکھا کرتا تھا۔ اس کو شروع ہی سے انجینئرنگ سے دل چسپی تھی۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ اسے کسی انجن کا نگران مقرر کیا جائے۔
جب وہ سترہ سال کا ہوا تو اس کی یہ خواہش پوری ہو گئی اور اسے ایک انجن کی دیکھ بھال پر ملازم رکھ لیا گیا۔ یہ انجن کان سے پانی نکالا کرتا تھا۔ جب کبھی اس میں خرابی پیدا ہوتی تو وہ خود اسے ٹھیک کر لیتا۔ اس طرح وہ رفتہ رفتہ انجن کے کل پرزوں کو پہچاننے لگا۔
کام کے ساتھ ساتھ جارج پڑھتا لکھتا بھی رہا۔ وہاں کوئلوں کو ٹوکریوں کے ذریعے باہر نکالا جاتا تھا۔ جب ٹوکریاں کان کے منہ پر پہنچ جاتیں تو وہ ایک کَل کے ذریعے جسے 'بریک' کہتے تھے، روک کر خالی کر لی جاتی تھیں۔ اس بریک پر بڑے تجربہ کار آدمی ملازم رکھے جاتے تھے، لیکن جارج کو اکیس سال کی عمر ہی میں اس جگہ مقرر کردیا گیا۔
اب جارج کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ ایک ایسا انجن بنائے گا جو گاڑیاں کھینچ سکے۔ اس سے پہلے بھی بہت سے آدمیوں نے اس قسم کی کوشش کی تھی اور انجنوں کے چند نمونے بنائے تھے، لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے آخر جارج سٹیفن سن بڑی محنت سے سب سے اچھا انجن بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ اکیس سال کی عمر میں جارج سٹیفن سن کی شادی ہو گئی لیکن تھوڑی مدت بعد ہی اس کی بیوی مر گئی۔ اس کو بہت صدمہ ہوا اور اس نے اپنے آپ کو مشغول رکھنے اور زیادہ روپیہ کمانے کے لیے سکاٹ لینڈ میں ایک جگہ ملازمت کر لی۔
چند ماہ بعد وہاں بھی اس کا دل نہ لگا اور وہ اپنے وطن آ گیا۔ واپسی پر اسے کوئی اچھی ملازمت نہ مل سکی اور اس نے امریکا جانے کا ارادہ کیا، لیکن کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کا یہ ارادہ پورا نہ ہو سکا۔ آخر وہ ایک انجن کا ڈرائیور بن گیا۔ یہ ویسٹ مور کا واقعہ ہے۔ خوش قسمتی سے یہاں جارج کو اپنی قابلیت دکھانے کا موقع مل گیا۔ اتفاق سے کنویں سے پانی نکالنے والا ایک بڑا انجن خراب ہو گیا اور ایسا خراب ہوا کہ بڑے سے بڑے انجینئر بھی اسے ٹھیک نہ کر سکے۔
جارج نے اسے دیکھتے ہی اس کا نقص بتا دیا، لیکن کوئی اس کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا کیونکہ اسے ایک معمولی ڈرائیور ہی سمجھا جاتا تھا۔ جب انجن کے مالک کو معلوم ہوا کہ جارج سٹیفن سن اسے ٹھیک کر سکتا ہے تو اس نے فوراً اس کی خدمات حاصل کیں۔ جارج نے سارا انجن کھول کر صاف کیا اور پھر سارے پرزوں کو جوڑ کر تیسرے دن اسے چلا دیا۔ مالک بہت خوش ہوا اور اس نے سٹیفن سن کو نہ صرف معقول اجرت دی بلکہ دس پونڈ انعام بھی دیا۔ ساتھ ساتھ اسے انجن کا نگران بھی مقرر کر دیا۔ جب وہاں کا چیف انجینئر فوت ہو گیا تو جارج سٹیفن سن کو اس کی جگہ مل گئی اور اس کی تنخواہ ایک سو پونڈ سالانہ ہو گئی۔ جب روزی کی طرف سے اسے اطمینان ہوا تو اس نے مطالعے کی طرف توجہ دی۔
وہ برابر یہ سوچتا رہتا تھا کہ موجودہ انجن کو کس طرح بہتر بنایا جائے؟ جارج سے پہلے ایک اور موجد جیمز واٹ بھاپ سے چلنے والا انجن بنا چکا تھا لیکن تسلی نہ ہوئی۔ اس نے ایسا انجن بنانے کا ارادہ کر لیا جو گاڑی کھینچ سکے۔
انگلستان کے ایک امیر شخص نے اسے اس کام کے لیے مالی امداد دی اور جارج نے دس ماہ کی محنت کے بعد ایک ایسا انجن بنا لیا جسے جنوری 1814ء میں ریل کی پٹری پر چلایا گیا۔ جارج اپنے انجن کو بہتر بناتا رہا۔ نیوکاسل میں ایک کارخانہ قائم کیا گیا جس میں اچھے انجن بننے لگے۔ ایک نئی پٹڑی 1825ء بچھائی گئی اور اس پر جو گاڑی چلائی گئی اس کی رفتار صرف بارہ میل فی گھنٹہ تھی۔
بڑی مشکل سے انگلستان میں ریل چلانے کا قانون منظور ہوا اور سٹیفن سن کو اس کا انجینئر مقرر کیا گیا۔ اس کی تنخواہ ایک ہزار پونڈ مقرر کی گئی، اسی سٹیفن سن کو بچپن میں صرف دو آنے روز مزدوری ملتی تھی۔ یہ تھا اس کے کام کا انعام کہ اب وہ انگلستان میں ریلوے کا سب سے بڑا انجینئر تھا۔
سٹیفن سن کا کام آسان نہ تھا۔ اسے پورے ملک میں ریلوے لائن بچھانی تھی۔ دلدلوں کو بھرنا تھا، اس پر پل تعمیر کرنے تھے اور کئی راستے زمین کے اندر سے نکالنے تھے۔وہ ریلوے لائن بچھانے کے علاوہ اپنے انجن کو بھی برابر ترقی دیتا رہا۔ اس کام میں اس کے بیٹے نے بھی اس کی مدد کی۔ بالآخر دونوں نے مل کر ایسا انجن بنایا جس کے ایک حصے میں ایندھن اور دوسرے میں پانی بھرا جاتا تھا۔ اس کا وزن 112 من تھا اور رفتار بھی زیادہ تھی۔ 1830ء میں ریل گاڑی کا افتتاح ہوا۔ انگلستان کے وزیراعظم اور بڑے بڑے افسر اس موقع پر موجود تھے۔ اس دن آٹھ انجن ایک دوسرے کے بعد گاڑیاں لے کر چلے۔ سب سے آگے والے انجن کو سٹیفن سن خود چلا ریا تھا۔ رفتار بیس میل فی گھنٹہ تھی۔
جارج سٹیفن سن کو اپنی محنت کی بدولت بڑی شہرت ہوئی اور دولت نے بھی اس کے قدم چومے لیکن غرور اسے چھو کر بھی نہیں گیا تھا۔ وہ آخر وقت تک کام کرتا رہا۔ بالآخر 12 اگست 1848ء کو اس کا انتقال ہو گیا۔ مرتے وقت اس کی عمر 67 سال تھی۔
Comments are closed on this story.