کوہ قاف: پریوں اور جنّات کا مسکن، حقیقت کیا ہے؟
کوہ قاف کا ذکر تو آپ نے بچپن میں بہت سی کہانیوں میں سنا ہوگا۔ جیسے ایک بادشاہ کی بیٹی محل کے چھت پر گھوم رہی ہوتی ہے، ایک 'دیو' اس کو اٹھا کر کوہ قاف میں قید کردیتا ہے۔ بادشاہ مختلف ممالک کے شہزادوں کو اس مہم پر روانہ کرتا کہ جومیری شہزادی کوواپس لائے گا میں اس کی شادی اپنی بیٹی سے کردوں گا۔تو ایک نیک دل شہزادہ بھی اس مہم پر روانہ ہوتا ہے اس کی ملاقات ایک بزرگ سے ہوتی ہے، بزرگ اس کی نیک دلی کی وجہ سے اس کو ایک انگوٹھی دیتےہیں جس کی بدولت وہ فوراً قاف کی پہاڑیوں پر پہنچ کر دیو کو مار دیتا ہے، اور شہزادی کو آزاد کروا کر واپس اس کے وطن لے آتا ہے۔ شہزادی کی شادی اس شہزادے سے ہوجاتی ہے اور دونوں ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔
اس طرح کی ملتی جلتی کہانیاں آپ نے ضرور پڑھی ہوں گی لیکن شائد آپ کو معلوم نہ ہو کہ "کوہ قاف " اصل میں ہے کہاں؟
کوہ قاف جس کو کوہ قفقاز بھی کہتے ہیں، بحیرہ اسود اور بحیرہ قزوین کے درمیان خطہ قفقاز کا ایک پہاڑی سلسلہ ہے۔ جو ایشیا اور یورپ کو جدا کرتا ہے۔ کبھی اس کا شمار روس میں ہوتا تھا۔ لیکن روس کے ٹوٹنے کے بعد اب یہ حصہ چیچنیا میں شمار ہوتا ہے۔
کوہ قاف کے پہاڑی سلسلے کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ البروس ہے، جو 18 ہزار 506 فٹ (5 ہزار 642 میٹر) بلند ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ کوہ قاف کا سلسلہ یورپ میں ہے یا ایشیا۔ اسلئے کہ یہ پہاڑی سلسلہ کافی طویل ہے، جو تقریبا 1100 کلومیٹر لمبا اور 160 کلومیٹر چوڑا ہے۔
کوہ قاف کے شمالی دامن میں واقع چچنیا کی چھوٹی سی جمہوریہ جس کا رقبہ پندرہ ہزار مربع کلو میٹر ہے اور آبادی دس لاکھ سے بھی کم، صدیوں سے روس سے نبرد آزما رہی ہے ۔ گو کوہ قاف کا یہ پورا علاقہ سولہویں صدی سے صفوی ایران ، سلطنت عثمانیہ اور زار روس کے درمیان کشمکش اور معرکوں کا مرکز رہا ہے، لیکن چچنیا کے عوام نے اپنی آزادی کی جنگ کا آغاز اس وقت کیا جب اٹھارویں صدی کے آخر میں عیسائی جارجیا نے ماسکو کے ساتھ اتحاد کیا اور چچنیا ایک طرف جنوب میں جارجیا اور شمال میں روس کے گھیرے میں آگیا ۔
قفقاز کا پہاڑی سلسلہ شمالی قفقاز اور ماورا قفقاز میں تقسیم کرتا ہے- شمالی قفقاز روس کی سرزمین ہے جبکہ ماورا قفقاز میں خودمختار ریاستیں جارجیا، آرمینیا اور آذربائجان واقع ہیں- قفقاز کے پہاڑ کافی ڈھلوان ہیں-
اس پہاڑی سلسلے میں 5 ہزار میٹر سے زیادہ لمبے چند پہاڑ ہیں- سب سے اونچے پہاڑ ایل بروس اور کازبیک ہیں جن کی بلندی بالترتیب 5 ہزار 642 اور 5 ہزار 33 میٹر ہے- ان پہاڑوں کی برف کی سفید چادرمیں لپٹی ہوئی دو دو چوٹیاں ہیں- دراصل یہ پہاڑ مردہ آتش فشاں ہیں- پہاڑوں کی مخروط شکل، ڈھلوانوں پر گرم گیسوں کا اخراج اور معدنی پانی کے سرچشمے آتش فشانوں کے گزرے وقت میں پھٹنے کی یاد دلاتے ہیں-
اس علاقے میں معدنی پانی کے سرچشموں کی بہتات ہے- سب سے مقبول سرچشموں کے نام 'نارزان'، 'برژومی' اور 'یسین توکی' ہیں- ان کے قریب مشہور صحت گاہیں اور تفریحی مقامات واقع ہیں، جہاں روسی لوگ سوویت زمانے سے آرام و تفریح کرنا پسند کرتے ہیں-
شمالی قفقاز کے حالات موسمی طور پر معتدل ہیں- اونچے پہاڑ گرم جنوبی ہواؤں کو وہاں نہیں آنے دیتے، جبکہ یوں ٹھنڈی شمالی ہوائیں اس علاقے تک نہیں پہنچتیں- جاڑے میں شمالی قفقاز میں کڑاکے کی سردی نہیں پڑتی اور گرمیوں میں دریاۓ کوبان کی وادی میں چاول جیسی فصل اگانے کے لیے سازگار حالات ہیں- وہاں سے شمال کی طرف چاول اور کہیں نہیں اگایا جا سکتا-
شمالی قفقازمیں بہت زیادہ گلیشیر موجود ہیں۔ موسم بہار میں جب ان کی برف پگھلنے لگتی ہے تو مقامی دریا پانی سے بھر جاتے ہیں- اس لیے اس سوکھے علاقے میں پانی کی قلت کا مئسلہ کبھی پیدا نہیں ہوتا- شمالی قفقاز کے سب سے بڑے دریا کوبان اور تیریک ہیں- قفقاز صحت بخش ہوا کا ایک ذخیرہ ہے اور اس کے مناظر کو بے حد حسین قرار دیا جاۓ تو مبالغہ نہیں ہوگا- روس کے کوہ پیماؤں کو قفقاز سے بڑا لگاؤ ہے-
اکثر کوہ پیما ایل بروس کو سر کرنے کی کوشش کرتے ہیں- قفقاز کی وادیوں میں کوہ پیماؤں کے کئی کیمپ اور مقام تبردا اور دومبئ میں پہاڑی اسکی انگ کے اڈے قائم ہیں- شعبۂ سیاحت کے لحاظ سے قفقاز کے پہاڑی سلسلے کی صلاحیات یورپ کے کوہ آلپس سے کچھ کم نہیں ہیں-
پاکستان، ہندوستان اور ایران میں کوہ قاف کے متعلق جنوں اور پریوں کے بے شمار قصے مشہور ہیں جو نہ صرف عوام میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے ہیں، بلکہ بچوں کی کہانیوں میں باقاعدہ لکھے جارہے ہیں ۔ ہوسکتا ہے اس میں کچھ صداقت بھی ہو۔ ہوسکتا ہے یہ ویران جگہ جنات کا مسکن ہو۔ لیکن تصدیق کرنا مشکل ہے۔باقی اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس میں کتنی سچائی ہے۔
Comments are closed on this story.