درخت کے پتوں سے بنائے گئے لباس کی تصویر وائرل
چین میں طالبعلموں نے تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے درخت کے پتوں سے لباس تیار کرکے لوگوں کو حیران کردیا۔
مشرقی چین میں واقعہ یونیورسٹی آف ہیفی کے چار طالب علموں نے حال ہی میں کچھ ایسا کردکھایا جسے دیکھ کر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ڈیزائنر جوڑا بنانے کیلئے عمر بھر کی کمائی لگانے کی ضرورت نہیں ۔
چار طالب علموں کی مدد سے بنایا گیا ایک خوبصورت لباس پچھلے کافی دنوں سے سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکا ہے۔ اس لباس کی خاص بات یہ ہے کہ طالب علموں نے یہ لباس چھ ہزار پتوں کی مدد سے تیار کیا ہے۔
اس انوکھے لباس کے پیچھے 2 لڑکے اور 2 لڑکیوں کی ٹیم موجود تھیں۔ چاروں دوستوں کو یہ خیال 6 مہینہ پہلے آیا تھا جب وہ یونیورسٹی میں ہونےوالے دلچسپ پروجیکٹ 'انیمل اینڈ پلانٹ اسپیسیمن کانٹیسٹ' کے بارے میں بات چیت کررہے تھے۔
اس وقت ٹیم کی ایک لڑکی نے اپنے دیگر دوستوں کو مشہور کانزفلم فیسٹیول کی ایک تقریب میں آنے والی چینی اداکارہ 'فین بنگ بنگ' کے لباس کے بارے میں بتارہی تھیں اسی وقت ٹیم کے ایک ممبر نے کہا کہ کیوں نے ویسا ہی لباس درخت کے پتوں سے بنایا جائے۔ جس کے فوراً بعد وہ یہ خیال اپنے استاد کے پاس لے کر پہنچے۔
البتہ یہ کام کرناآسان نہیں تھا لیکن پھر بھی طالب علم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔
ریسرچ کرنے کے بعد چاروں دوستوں نے پتے جمع کرنا شروع کردیے، جہاں کچھ پتے انہیں یونیورسٹی سے ہی مل گئے وہی کچھ خاص پتوں کو ڈھونڈنے کیلئےانہیں ٹیانزو پہاڑوں کا رخ بھی کرنا پڑا۔
ٹیم نے پتوں کو دو گھنٹے تک القلی اور سوڈیم کاربونیٹ کے مرکب میں گرم کیا تاکہ پتے مرجھا نہ جائیں۔ گرم کرنے کی وجہ سے پتوں میں سے گوشت باہر آگیا اور صرف پتوں کا ڈھانچہ رہ گیا جن کی مدد سے لباس بنا جاسکتا تھا۔
یہ فارمولا بولنے میں تو بے شک بہت آسان لگتا ہے لیکن کافی کوششیں کرنے کے بعد پتوں کو اس قابل بنایا گیا کہ جب وہ لباس پر لگے تو کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ مرجھا نہ جائیں۔
یہ چار طالب علم صرف کلاسز کے بعد اپنے انوکھے لبا س پر کام کیا کرتے تھے جس کے باوجود انہیں یہ لبا س مکمل کرنے میں چھ مہینہ لگ گئے۔ لباس بننے کے بعد چاروں دوستوں نے اس کی تصاویر انٹرنیٹ پر شیئر کی جو کچھ ہی وقت میں وائرل ہوگئی۔
یقیناً ہم نے اس سے پہلے بھی اچھے لباس دیکھے ہونگے لیکن شاید یہ انوکھا لباس آپ پہلی بار دیکھ رہے ہونگے جسے بنانے میں 4 مہینے اور 6 ہزار پتے صرف ہوئے۔
لباس کی تصاویر ملاحظہ کیجئے۔
بشکریہ: اوڈیٹی سینٹرل
Comments are closed on this story.