یاجوج ماجوج کون ؟ ان کا ظہور کب ہوگا اور کیسے مریں گے۔۔۔
قرآن شریف میں قرب قیامت کی کئی نشانیاں بیان کی گئی ہیں اور اسہی میں سے ایک نشانی یاجوج ماجوج کا ظہورہے تاہم سوال یہ ہے کہ یاجوج ماجوج کا ظہور کب ہوگا اور یہ کیسے مریں گے۔
یاجوج ماجوج یافث کی اولاد میں سے ہیں۔ یافث بن نوح علیہ السلام حضرت نو ح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور ان کا شمار نوح علیہ السلام کے ان بیٹوں میں ہوتا ہے جو کہ ایمان لے آئے تھے اور یہی طوفان نوح کے وقت بھی کشتی میں سوار ہوئے تھے۔
طوفان نوح کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے مختلف علاقوں میں بس گئے، یاجوج ماجوج بھی حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی اولاد میں سے ہیں ، یہ ایک فسادی گروہ ہے ، ان لوگوں کی تعداد کثیر ہے اور یہ لوگ بلا کے جنگجوو خونخوار ہیں، یہ لوگ آدمی ، کیڑے مکوڑے، جنگلی جانور سمیت ہر چیز کو کھاجاتے ہیں۔
رقم ہے کہ جب ان کے ظلم و ستم کی شکایت آبادی والوں نے حضرت ذوالقرنین سے کی تو ذوالقرنین نے دو پہاڑوں کے درمیان بنیاد کھدوائی اور جب پانی نکل آیا تو پگھلائے ہوئے تانبے اور گارے سے پتھر جمائے گئے اور لوہے کے تختے اوپر نیچے چن کر ان میں لکڑی اور کوئلہ بھردیا گیا اور پھر اس میں آگ لگادی گئی۔
اس طرح یہ دیوار پہاڑ کی بلندی تک پہنچ گئی اور پھر اس میں پگھلایا ہوا تانبہ پلادیا گیا،یہاں تک کہ کوئی جگہ نہیں چھوڑی گئی۔
قرآن مجید میں ہے کہ جب کھولے جائیں گے یاجوج ماجوج اور وہ ہر بلندی سے ڈھلکتے ہوئے دوڑتے ہونگے۔
حدیث شریف میں ہے کہ یاجوج ماجوج روزانہ اس دیوار کو توڑتے ہیں اور پھر دن بھر میں اس دیوار کو توڑتے توڑتے اسکو توڑنے کے قریب ہوجاتے ہیں تو ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ اب چلو کل توڑ ڈالیں گے ، دوسرے دن جب اس دیوار کے ٹوٹنے کا وقت آئے گا تو کوئی کہے گا چلو انشاء اللہ اب اسکو کل توڑیں گے اور انشاء اللہ کہنے کی برکت سے یہ دیوار دوسرے دن ٹوٹ جائے گی۔ یہ قیامت قریب ہونے کا وقت ہوگا۔
دیوار ٹوٹنے کے بعد یاجوج ماجوج نکل پڑیں گے اور زمین میں ہر طرف فتنہ و فساد کریں گے تاہم یہ مکہ مکرمہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوپائیں گے۔
پھر بعد میں حضرت عیسی علیہ السلام کی دعا سے ان کے جسم میں کیڑے پڑ جائیں گے جس سے یہ ہلاک ہوجائیں گے۔
اگر دور حاضر کا تجزیہ کیا جائے تو قیامت کی نشانیاں بتدریج پوری ہوتی جارہی ہیں تاہم اللہ تعالی ہم کو تمام کبیرہ اور صغیرہ گناہ سے دور رکھے اور توبہ و استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(صحیح بخاری جلد دوم ، انبیاء السلام کا بیان- حدیث چھ سو چھ میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے)
Comments are closed on this story.