دنیا میں موجود سزائے موت دینے کے 10 انتہائی خطرناک طریقے
دنیا میں جب بھی انسان کوئی غلطی سرزد کرتا ہے تو قانون حرکت میں آجاتا ہے۔ جو جیسا جرم کرتا ہے اس کو اسی کے مطابق سزا دی جاتی ہے آج ہم آپ کو دنیا میں موجود سزائے موت کے دس انتہائی خطرناک اور روح کو دہلا دینے والے طریقے بتانے جارہے ہیں۔ ان میں سے کچھ طریقے دنیا کے مختلف ممالک میں کچھ ہی عرصے تک رائج رہے تاہم انہیں بعد میں ختم کردیا گیا۔ ہمیں امید ہے آپ بھی ان درد ناک قوانین کے بارے میں جان کر حیران رہ جائیں گے۔
ہاتھیوں کے ذریعے موت دینا
یہ طریقہ آٹھویں صدی سے انیسویں صدی تک ساؤتھ اور ساؤتھ ایسٹ ایشیاء بالخصوص بھارت میں رائج تھا۔ اس طریقے میں مجرم کو بد مست ہاتھیوں کے سامنے پھینک دیا جاتا تھا جس کے ہاتھی مجرم کو اپنے پیروں میں روند روند کر موت کی آغوش میں سلادیتے ہیں۔ تاہم سزا دینے کا یہ قانون اب ختم ہوچکا ہے۔
ابال کر مت دینا
اس طریقے میں مجرم کو ایک بڑی دیگ یا کنٹینر نما چیز میں پانی کو ابال کر ڈال دیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ خاص طور پر یورپ اور ایشیاء میں رائج تھا۔ اس طریقے سے انگلینڈ، جاپان اور بھارت کے ایک ایک شخص سزائے موت دی گئی تاہم اب یہ قانون بھی ختم ہوچکا ہے۔
لکڑی کو جسم کے آر پار ڈال دینا
اس طریقے میں مجرم کو ایک نوک دار لکڑی پر بٹھا کر اس طرح دھنسایا جاتا کہ وہ لکڑی اس جسم کے آرپار ہوجائے یہ طریقہ اس لحاظ سے بھی خاصا دردناک تھا کہ مجرموں کی جان جانے میں کئی کئی دن بھی لگ جایا کرتے تھے۔ یہ سزائے موت کا طریقہ 1533 میں خاص طور پر رومانیہ میں راج تھا اور یہاں 80 ہزار سے زائد لوگوں کو اسی سزا کے تحت موت دی گئی۔ تاہم یہ بھی اب ختم ہوچکا۔
ریٹ ٹورچر
اگر اس طریقے کو سب سے برا اور خطرناک طریقہ کہا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا اس طریقے میں مجرم کو چوہوں کی مدد سے اذیت دی جاتی تھی جو موت کا باعث بنتی تھی۔ اس سزا میں چوہوں سے بھرا ایک ٹوکرا انسانی جسم کے کھلے حصے پر رکھا جاتا اور اوپر کی جانب کوئلے یا آگ کو طلا دیا جاتا جس کے خوف سے چوہے انسانی پیٹ کو کتر کر باہر نکلنے کی کوشش کرتے اور اسی عمل کے دوران اس مجرم کی موت ہوجاتی۔ یہ طریقہ انیسویں اور بیسویں صدی میں چائنا سمیت دیگر ملکوں میں استعمال ہوتا رہا ہے۔
مجرم کی کھال اتار کر
یہ ایک ایسا دردناک طریقہ ہے جس میں زندہ حالت میں مجرم کی کھال اتارنا شروع کردی جاتی ہے کھال اتارنے کا عمل چہرے سے شروع کیا جاتا جس میں پورے جسم کی کھال اترنے سے قبل ہی زیادہ خون بہہ جانے موت واقع ہوجاتی تھی۔ یہ طریقہ کئی برسوں پہلے افریقہ اور امریکہ جیسے ممالک میں رائج تھا۔
لیتھل انجیکشن
یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس میں ڈرگز مجرم کے جسم میں انجیکشن کے ذریعے داخل کیا جاتا ہے جس کے بعد مجرم کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اس طریقے کے تین مراحل ہوتے ہیں پہلے مرحلے میں بے ہوشی کا انجیکشن دیا جاتا ہے، دوسرے انجیکشن کے ذریعے جسم میں سانس روک دینے والا ڈرگ منتقل کیا جاتا ہے اور آخر میں دل کی دھڑکن کو روک دینے والا انجیکشن منتقل کیا جاتا ہے جس کے بعد مجرم کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اس طریقے کا آغاز بیسویں صدی میں امریکہ سے شروع ہوا اور اب یہ چائنا اور تھائیلینڈ جیسے ممالک میں سزائے موت کا لیگل طریقہ ہے۔
فائرنگ اسکواڈ
اس طریقے میں مجرم کو گولیوں کے وار سے چھلنی کرکے موت دی جاتی تھی۔ ایک دستہ جو عموماً فوجیوں پر مشتمل ہوتا ہے مجرم کے دل میں نشانہ بنا کر فائرنگ سے اسے ہلاک کرتا ہے یہ طریقہ 2004 تک امریکا میں موت کی سزا دینے کا لیگل قانون بھی تھا جبکہ اب بھی یہ کچھ امریکی ریاستوں میں رائج ہے۔
اسٹوننگ
اس طریقے میں مجرم کے ہاتھ پیروں کو جکڑ کر اس پر پتھر برسائے جاتے ہیں یہ پتھر سائز میں نہ تو زیادہ بڑے ہوتے ہیں کہ مجرم فوراً ہی مر جائے اور نہ ہی زیادہ چھوٹے ہوتے ہیں۔ یہ درمیانے سائز کے ہوتے ہیں تاکہ مجرم کی جان آہستہ آہستہ نکلے یہ عام طور پر اسلامی ممالک میں رائج رہا ہے یہ قانون ایران اور افغانستان میں رائج تھا ساتھ ہی پاکستان کے بھی کچھ علاقوں میں اسی کے تحت سزا دی جاتی تھی۔
بی ہیڈنگ
یہ طریقہ سعدی عرب کا قانونی طریقہ ہے اس میں مجرم کا سر اس کے دھڑ سے جدا کردیا جاتا ہے یہ اسلامی لحاظ سے جائز ہے۔ یہ طریقہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے دور میں بھی استعمال ہوا ہے۔
Comments are closed on this story.