Aaj News

پیر, نومبر 25, 2024  
23 Jumada Al-Awwal 1446  

جب پاکستانی پائلٹ 46 برس بعد انڈین جہاز مار گرانے پر نادم ہوئے

شائع 20 ستمبر 2017 12:32pm

_97875180_52f11e89-13b6-4b8d-b4c1-f6be375e8c3b

بشکریہ: بی بی سی اردو

19 ستمبر سنہ 1965 کو گجرات کے وزیر اعلیٰ بلونت رائے مہتا نے دن کی ابتدا علی الصبح کی۔ 10 بجے انھوں نے این سی سی کی ایک ریلی سے خطاب کیا۔ دوپہر کے کھانے کے لیے گھر واپس آئے اور پھر ڈیڑھ بجے ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہو گئے۔

ان کے ساتھ ان کی اہلیہ سروج بین، تین ساتھی اور 'گجرات سماچار' سے وابستہ ایک صحافی تھے۔ جیسے ہی وہ ہوائی اڈے پہنچے، انڈین ایئر فورس کے سابق پائلٹ جہانگیر جنگو انجینیئر نے انھیں سلیوٹ کیا۔

ہوائی جہاز میں سوار ہوتے ہی جنگو انجینیئر نے اپنا بیچ کرافٹ طیارہ سٹارٹ کیا۔ انھیں 400 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دوارکا کے علاقے میٹھا پور جانا تھا جہاں بلونت رائے کو ایک عوامی ریلی سے خطاب کرنا تھا۔

ادھر ساڑھے تین بجے کے آس پاس پاکستان کے ماڑی پور ایئر بیس پر فلائٹ لیفٹینٹ بخاری اور فلائنگ افسر قیس حسین سے کہا گیا کہ بھوج کے پاس ریڈار پر آنے والے ایک ہوائی جہاز کو چیک کریں۔

قیس حسین چار ماہ قبل ہی ایف 86 سیبر طیارے کی تربیت لے کر امریکہ سے واپس آئے تھے۔ قیس نے بی بی سی کو بتایا: 'سکریمبل کا سائرن بجنے کے تین منٹ بعد میں نے جہاز سٹارٹ کیا۔ میرے بدين ریڈار سٹیشن نے مجھے مشورہ دیا کہ میں بیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کروں۔ اسی اونچائی پر میں نے بھارت کی سرحد بھی پار کی۔'

'تین چار منٹ کے بعد انھوں نے مجھے نیچے آنے کے لیے کہا۔ تین ہزار فٹ کی اونچائی پر مجھے یہ بھارتی جہاز نظر آیا جو بھوج کی طرف جا رہا تھا۔ میں نے اسے مٹھالي گاؤں کے اوپر انٹرسیپٹ کیا۔ جب میں نے دیکھا کہ یہ تو سویلین جہاز ہے تو میں نے اس پر فوراً فائرنگ نہیں کی۔ میں نے اپنے کنٹرولر کو رپورٹ کیا کہ یہ ایک سویلین جہاز ہے۔'

'میں اس جہاز کے اتنے قریب گیا کہ میں اس کا نمبر بھی پڑھ سکتا تھا۔ میں نے کنٹرولر کو بتایا کہ اس پر وکٹر ٹینگو لکھا ہوا ہے۔ یہ آٹھ سیٹوں والا جہاز ہے۔ بتائیں اس کا کیا کرنا ہے؟'

'انھوں نے مجھ سے کہا کہ آپ وہیں رہیں اور ہماری ہدایات کا انتظار کریں۔ انتظار کرتے کرتے تین چار منٹ گزر گئے۔ میں کافی نیچے پرواز کر رہا تھا، تو مجھے فکر ہو رہی تھی کہ واپس جاتے وقت میرا ایندھن نہ ختم ہو جائے۔ لیکن تبھی میرے پاس حکم آيا کہ میں اس جہاز کو شوٹ کر دوں۔'

لیکن قیس حسین نے اس جہاز کو فوری طور پر شوٹ نہیں کیا۔ انھوں نے دوبارہ کنٹرول روم سے اس بات کی تصدیق کی کہ آیا وہ واقعی چاہتے ہیں کہ اس طیارے کو گرا دیا جائے۔

قیس حسین نے یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: 'کنٹرولر نے کہا کہ آپ اسے شوٹ کر دیں، میں نے 100 فٹ کی فاصلے سے نشانہ لگا کر اس پر برسٹ فائر کیا۔ میں نے دیکھا کہ اس جہاز کے بائیں پر سے کوئی چیز اڑی۔ اس کے بعد میں نے اپنی رفتار کو کم کیا اور اسے تھوڑا لمبا فائر دیا اور پھر میں نے دیکھا کہ اس کے داہنے انجن سے شعلے نکل رہے ہیں۔'

'اس کے بعد جہاز نوز اوور کرتے ہوئے 90 ڈگری کا سٹیپ ڈائیو لیتا ہوا زمین کی طرف گيا۔ جیسے ہی وہ زمین پر گرا وہ آگ کے شعلوں میں تھا اور مجھے معلوم ہو گيا کہ جہاز میں سوار سبھی افراد ہلاک ہو گئے تھے۔'

قیس نے بتایا کہ ان کے فائرنگ کرنے سے قبل اس جہاز نے بار بار ایسے اشارے کرنے کی کوشش کی کہ وہ ایک سویلین ہوائی جہاز ہے۔

’جب میں نے اس جہاز کو انٹرسیپٹ کیا تو، اس نے اپنے ونگز کو ہلانا شروع کیا جس کا مطلب ہے کہ 'ہیو مرسی آن می' لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جہاز سرحد کے اتنے پاس اڑ رہا تھا کہ شک تھا کہ کہیں یہ ہماری تصویریں تو نہیں لے رہا ہے؟'

'بلونت مہتا کا تو کسی کو کچھ خیال ہی نہیں آیا کہ وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ وہاں پرواز پر ہوں گے۔ کوئی ایسا طریقہ بھی دستیاب نہیں تھا کہ ریڈیو کے ذریعے پتہ لگایا جا سکتا کہ جہاز کے اندر کون کون سوار ہے۔'

پاکستان میں ہوا بازی کے مؤرخ قیصر طفیل لکھتے ہیں: 'بھارت اور پاکستان دونوں نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں فوجی کاموں کے لیے شہری جہازوں کا استعمال کیا تھا، لہذا ہر طیارے کی فوجی صلاحیتوں کا اندازہ کیا جا رہا تھا۔'

اسی دن شام کو 7 بجے کے بلیٹن میں آل انڈیا ریڈیو نے اعلان کیا کہ ایک پاکستانی طیارے نے بھارت کے ایک شہری جہاز کو گرا دیا ہے جس میں گجرات کے وزیر اعلی بلونت رائے مہتا سوار تھے۔

پي وی ایس جگموہن اور سمیر چوپڑا اپنی کتاب 'دی انڈیا پاکستان ایئر وار آف 1965' میں لکھتے ہیں: 'نليا کے تحصیل دار کو حادثے کی جگہ پر بھیجا گیا۔ وہاں انھیں گجرات سماچار کے صحافی کا جلا ہوا شناختی کارڈ ملا۔'

'بہت سے سوالات کے جواب ابھی تک نہیں مل پائے ہیں، مثلاً جہاز کو جنگ کے علاقے میں بغیر کسی سکاٹ طیارے کے کیوں جانے دیا گیا؟ کیا جہاز بھارتی فضائیہ کی معلومات کے بغیر وہاں گیا؟'

چار ماہ بعد اس پورے معاملے کی تفتیشی رپورٹ آئی۔ اس کے مطابق: 'ممبئی کی فضائیہ نے وزیر اعلی کے طیارے کو پرواز کی اجازت نہیں دی تھی۔ جب گجرات حکومت نے زور ڈالا تو ایئر فورس نے کہا تھا کہ اگر آپ جانا ہی چاہتے ہیں تو وہاں اپنے رسک پر جائیں۔'

یہ پہلا موقع تھا کہ انڈیا اور پاکستان کی جنگ کے درمیان ایک سویلین طیارے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ بلونت مہتا بھارت کے پہلے سیاست دان تھے جو سرحد پر فوجی کارروائی میں ہلاک ہوئے تھے۔

جہاز کے پائلٹ جہانگیر انجینیئر کا خاندان اس وقت دہلی میں رہتا تھا۔ ان کی بیٹی فریدہ سنگھ کو سب سے پہلے یہ خبر ان کے چچا ایئر مارشل انجینیئر سے فون پر ملی کہ ان کے والد اور انجینیئر کے بھائی اس دنیا میں نہیں رہے۔

فریدہ سنگھ نے بی بی سی کو بتایا: 'پہلے تو سن کر بہت دکھ ہوا ہی لیکن جب تفصیلات سامنے آئیں تو اور دکھ ہوا۔ وہ پیچھا کرنے والے جہاز سے بچنے کے لیے 45 منٹ تک اڑتے رہے۔ وہ خود فائٹر پائلٹ تھے۔ انھیں اس بات کا اندازہ تھا کہ چھوٹے جہازوں میں جنگی جہازوں کے مقابلے میں پیٹرول کم خرچ ہوتا ہے۔'

'وہ کافی دیر تک اپنے جہاز کو اوپر نیچے کرتے رہے۔ قیس حسین نے ان پر تب فائر شروع کیا جب ان کے ہوائی جہاز میں بہت کم پٹرول رہ گیا تھا۔ جب اس مشن کے بعد وہ ماڑی پور ایئر بیس پر اترے تو اس میں اتنا کم پٹرول تھا کہ ان کا انجن فلیم آؤٹ ہو گیا تھا اور ان کے جہاز کو ٹو کرکے لے جانا پڑا تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ آل موسٹ میڈ اٹ۔'

اس کے بعد اس واقعے کا کوئی خاص تذکرہ نہیں ہوا۔ قیس حسین نے بھی اس پریشانی کو اپنے دل میں خاموشی سے زندہ رکھا۔

46 سال بعد پاکستان میں ایک اخبار نے قیصر طفیل کا ایک مضمون شائع کیا جس میں انھوں نے انجینیئر کے طیارے کو جنگی علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے لیے انڈین ٹریفک کنٹرولرز کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

پھر قیس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس ہوائی جہاز کے پائلٹ کی بیٹی فریدہ سے رابطہ کریں گے اور اس حادثے پر افسوس کا اظہار کریں گے۔

قیس حسین یاد کرتے ہیں: میرے دوست قیصر طفیل نے کہا کہ یہ کہانی ایسی ہے جس کا اب آپ کے سوا کوئی عینی شاہد نہیں ہے۔ انھوں نے میرا انٹرویو لیا اور وہ 'ڈیفینس جرنل پاکستان' میں موجود ہے۔ پھر میرے پاس انڈین تفتیشی کمیٹی کی رپورٹ آئی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ انجینیئر کا جہاز لینڈ کر گيا تھا اس کے بعد پاکستانی جہاز نے زمین پر اسے نشانہ بنایا۔'

'مجھے لگا کہ ان کے خاندان والوں کو یہ تک نہیں پتہ ہے کہ کن حالات میں ان کی موت ہوئی تھی۔ مجھے لگا کہ مجھے ان لوگوں کو تلاش کر کے صحیح صحیح بات بتانی چاہیے۔ میں نے اس کا ذکر اپنے دوست نوید ریاض سے کیا۔'

اس نے مجھے جنگو انجینیئر کی بیٹی فریدہ سنگھ کا ای میل دیا۔ 6 اگست 2011 کو میں نے انہیں ایک ای میل لکھا جس میں سارا قصہ بیان کیا۔ میں نے لکھا کہ انسانی زندگی کا ختم ہونا سب کے لیے دکھ کی بات ہوتی ہے اور مجھے آپ کے والد کی موت پر بہت افسوس ہے، اگر مجھے کبھی موقع ملا تو، میں آپ کے پاس آؤں گا اور اس واقعے پر اپنے افسوس کا اظہار کروں گا۔'

'معافی میں نے نہیں مانگی کیونکہ جب فاٹر پائلٹ انڈر آرڈر ہوتا ہے تو دو ہی صورتیں ہوتی ہیں۔ اگر وہ مس کرتا ہے تو کورٹ آف انكوائري ہوتی ہے کہ آپ نے کیوں مس کیا؟ اور اگر دانستہ طور پر نہ ماریں تو یہ کورٹ آے اوفینس ہوتا ہے کہ آپ نے حکم کی خلاف ورزی کیوں کی۔'

19 ستمبر سنہ 1965 کو گجرات کے وزیر اعلیٰ بلونت رائے مہتا نے دن کی ابتدا علی الصبح کی۔ 10 بجے انھوں نے این سی سی کی ایک ریلی سے خطاب کیا۔ دوپہر کے کھانے کے لیے گھر واپس آئے اور پھر ڈیڑھ بجے ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہو گئے۔

ان کے ساتھ ان کی اہلیہ سروج بین، تین ساتھی اور 'گجرات سماچار' سے وابستہ ایک صحافی تھے۔ جیسے ہی وہ ہوائی اڈے پہنچے، انڈین ایئر فورس کے سابق پائلٹ جہانگیر جنگو انجینیئر نے انھیں سلیوٹ کیا۔

ہوائی جہاز میں سوار ہوتے ہی جنگو انجینیئر نے اپنا بیچ کرافٹ طیارہ سٹارٹ کیا۔ انھیں 400 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دوارکا کے علاقے میٹھا پور جانا تھا جہاں بلونت رائے کو ایک عوامی ریلی سے خطاب کرنا تھا۔

ادھر ساڑھے تین بجے کے آس پاس پاکستان کے ماڑی پور ایئر بیس پر فلائٹ لیفٹینٹ بخاری اور فلائنگ افسر قیس حسین سے کہا گیا کہ بھوج کے پاس ریڈار پر آنے والے ایک ہوائی جہاز کو چیک کریں۔

قیس حسین چار ماہ قبل ہی ایف 86 سیبر طیارے کی تربیت لے کر امریکہ سے واپس آئے تھے۔ قیس نے بی بی سی کو بتایا: 'سکریمبل کا سائرن بجنے کے تین منٹ بعد میں نے جہاز سٹارٹ کیا۔ میرے بدين ریڈار سٹیشن نے مجھے مشورہ دیا کہ میں بیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کروں۔ اسی اونچائی پر میں نے بھارت کی سرحد بھی پار کی۔'

'تین چار منٹ کے بعد انھوں نے مجھے نیچے آنے کے لیے کہا۔ تین ہزار فٹ کی اونچائی پر مجھے یہ بھارتی جہاز نظر آیا جو بھوج کی طرف جا رہا تھا۔ میں نے اسے مٹھالي گاؤں کے اوپر انٹرسیپٹ کیا۔ جب میں نے دیکھا کہ یہ تو سویلین جہاز ہے تو میں نے اس پر فوراً فائرنگ نہیں کی۔ میں نے اپنے کنٹرولر کو رپورٹ کیا کہ یہ ایک سویلین جہاز ہے۔'

'میں اس جہاز کے اتنے قریب گیا کہ میں اس کا نمبر بھی پڑھ سکتا تھا۔ میں نے کنٹرولر کو بتایا کہ اس پر وکٹر ٹینگو لکھا ہوا ہے۔ یہ آٹھ سیٹوں والا جہاز ہے۔ بتائیں اس کا کیا کرنا ہے؟'

'انھوں نے مجھ سے کہا کہ آپ وہیں رہیں اور ہماری ہدایات کا انتظار کریں۔ انتظار کرتے کرتے تین چار منٹ گزر گئے۔ میں کافی نیچے پرواز کر رہا تھا، تو مجھے فکر ہو رہی تھی کہ واپس جاتے وقت میرا ایندھن نہ ختم ہو جائے۔ لیکن تبھی میرے پاس حکم آيا کہ میں اس جہاز کو شوٹ کر دوں۔'

لیکن قیس حسین نے اس جہاز کو فوری طور پر شوٹ نہیں کیا۔ انھوں نے دوبارہ کنٹرول روم سے اس بات کی تصدیق کی کہ آیا وہ واقعی چاہتے ہیں کہ اس طیارے کو گرا دیا جائے۔

قیس حسین نے یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: 'کنٹرولر نے کہا کہ آپ اسے شوٹ کر دیں، میں نے 100 فٹ کی فاصلے سے نشانہ لگا کر اس پر برسٹ فائر کیا۔ میں نے دیکھا کہ اس جہاز کے بائیں پر سے کوئی چیز اڑی۔ اس کے بعد میں نے اپنی رفتار کو کم کیا اور اسے تھوڑا لمبا فائر دیا اور پھر میں نے دیکھا کہ اس کے داہنے انجن سے شعلے نکل رہے ہیں۔'

'اس کے بعد جہاز نوز اوور کرتے ہوئے 90 ڈگری کا سٹیپ ڈائیو لیتا ہوا زمین کی طرف گيا۔ جیسے ہی وہ زمین پر گرا وہ آگ کے شعلوں میں تھا اور مجھے معلوم ہو گيا کہ جہاز میں سوار سبھی افراد ہلاک ہو گئے تھے۔'

قیس نے بتایا کہ ان کے فائرنگ کرنے سے قبل اس جہاز نے بار بار ایسے اشارے کرنے کی کوشش کی کہ وہ ایک سویلین ہوائی جہاز ہے۔

’جب میں نے اس جہاز کو انٹرسیپٹ کیا تو، اس نے اپنے ونگز کو ہلانا شروع کیا جس کا مطلب ہے کہ 'ہیو مرسی آن می' لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جہاز سرحد کے اتنے پاس اڑ رہا تھا کہ شک تھا کہ کہیں یہ ہماری تصویریں تو نہیں لے رہا ہے؟'

'بلونت مہتا کا تو کسی کو کچھ خیال ہی نہیں آیا کہ وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ وہاں پرواز پر ہوں گے۔ کوئی ایسا طریقہ بھی دستیاب نہیں تھا کہ ریڈیو کے ذریعے پتہ لگایا جا سکتا کہ جہاز کے اندر کون کون سوار ہے۔

پاکستان میں ہوا بازی کے مؤرخ قیصر طفیل لکھتے ہیں: 'بھارت اور پاکستان دونوں نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں فوجی کاموں کے لیے شہری جہازوں کا استعمال کیا تھا، لہذا ہر طیارے کی فوجی صلاحیتوں کا اندازہ کیا جا رہا تھا۔'

اسی دن شام کو 7 بجے کے بلیٹن میں آل انڈیا ریڈیو نے اعلان کیا کہ ایک پاکستانی طیارے نے بھارت کے ایک شہری جہاز کو گرا دیا ہے جس میں گجرات کے وزیر اعلی بلونت رائے مہتا سوار تھے۔

پي وی ایس جگموہن اور سمیر چوپڑا اپنی کتاب 'دی انڈیا پاکستان ایئر وار آف 1965' میں لکھتے ہیں: 'نليا کے تحصیل دار کو حادثے کی جگہ پر بھیجا گیا۔ وہاں انھیں گجرات سماچار کے صحافی کا جلا ہوا شناختی کارڈ ملا۔'

'بہت سے سوالات کے جواب ابھی تک نہیں مل پائے ہیں، مثلاً جہاز کو جنگ کے علاقے میں بغیر کسی سکاٹ طیارے کے کیوں جانے دیا گیا؟ کیا جہاز بھارتی فضائیہ کی معلومات کے بغیر وہاں گیا؟'

چار ماہ بعد اس پورے معاملے کی تفتیشی رپورٹ آئی۔ اس کے مطابق: 'ممبئی کی فضائیہ نے وزیر اعلی کے طیارے کو پرواز کی اجازت نہیں دی تھی۔ جب گجرات حکومت نے زور ڈالا تو ایئر فورس نے کہا تھا کہ اگر آپ جانا ہی چاہتے ہیں تو وہاں اپنے رسک پر جائیں۔

یہ پہلا موقع تھا کہ انڈیا اور پاکستان کی جنگ کے درمیان ایک سویلین طیارے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ بلونت مہتا بھارت کے پہلے سیاست دان تھے جو سرحد پر فوجی کارروائی میں ہلاک ہوئے تھے۔

جہاز کے پائلٹ جہانگیر انجینیئر کا خاندان اس وقت دہلی میں رہتا تھا۔ ان کی بیٹی فریدہ سنگھ کو سب سے پہلے یہ خبر ان کے چچا ایئر مارشل انجینیئر سے فون پر ملی کہ ان کے والد اور انجینیئر کے بھائی اس دنیا میں نہیں رہے۔

فریدہ سنگھ نے بی بی سی کو بتایا: 'پہلے تو سن کر بہت دکھ ہوا ہی لیکن جب تفصیلات سامنے آئیں تو اور دکھ ہوا۔ وہ پیچھا کرنے والے جہاز سے بچنے کے لیے 45 منٹ تک اڑتے رہے۔ وہ خود فائٹر پائلٹ تھے۔ انھیں اس بات کا اندازہ تھا کہ چھوٹے جہازوں میں جنگی جہازوں کے مقابلے میں پیٹرول کم خرچ ہوتا ہے۔'

'وہ کافی دیر تک اپنے جہاز کو اوپر نیچے کرتے رہے۔ قیس حسین نے ان پر تب فائر شروع کیا جب ان کے ہوائی جہاز میں بہت کم پٹرول رہ گیا تھا۔ جب اس مشن کے بعد وہ ماڑی پور ایئر بیس پر اترے تو اس میں اتنا کم پٹرول تھا کہ ان کا انجن فلیم آؤٹ ہو گیا تھا اور ان کے جہاز کو ٹو کرکے لے جانا پڑا تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ آل موسٹ میڈ اٹ۔'

اس کے بعد اس واقعے کا کوئی خاص تذکرہ نہیں ہوا۔ قیس حسین نے بھی اس پریشانی کو اپنے دل میں خاموشی سے زندہ رکھا۔

46 سال بعد پاکستان میں ایک اخبار نے قیصر طفیل کا ایک مضمون شائع کیا جس میں انھوں نے انجینیئر کے طیارے کو جنگی علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے لیے انڈین ٹریفک کنٹرولرز کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

پھر قیس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس ہوائی جہاز کے پائلٹ کی بیٹی فریدہ سے رابطہ کریں گے اور اس حادثے پر افسوس کا اظہار کریں گے۔

قیس حسین یاد کرتے ہیں: میرے دوست قیصر طفیل نے کہا کہ یہ کہانی ایسی ہے جس کا اب آپ کے سوا کوئی عینی شاہد نہیں ہے۔ انھوں نے میرا انٹرویو لیا اور وہ 'ڈیفینس جرنل پاکستان' میں موجود ہے۔ پھر میرے پاس انڈین تفتیشی کمیٹی کی رپورٹ آئی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ انجینیئر کا جہاز لینڈ کر گيا تھا اس کے بعد پاکستانی جہاز نے زمین پر اسے نشانہ بنایا۔'

'مجھے لگا کہ ان کے خاندان والوں کو یہ تک نہیں پتہ ہے کہ کن حالات میں ان کی موت ہوئی تھی۔ مجھے لگا کہ مجھے ان لوگوں کو تلاش کر کے صحیح صحیح بات بتانی چاہیے۔ میں نے اس کا ذکر اپنے دوست نوید ریاض سے کیا۔'

اس نے مجھے جنگو انجینیئر کی بیٹی فریدہ سنگھ کا ای میل دیا۔ 6 اگست 2011 کو میں نے انہیں ایک ای میل لکھا جس میں سارا قصہ بیان کیا۔ میں نے لکھا کہ انسانی زندگی کا ختم ہونا سب کے لیے دکھ کی بات ہوتی ہے اور مجھے آپ کے والد کی موت پر بہت افسوس ہے، اگر مجھے کبھی موقع ملا تو، میں آپ کے پاس آؤں گا اور اس واقعے پر اپنے افسوس کا اظہار کروں گا۔'

'معافی میں نے نہیں مانگی کیونکہ جب فاٹر پائلٹ انڈر آرڈر ہوتا ہے تو دو ہی صورتیں ہوتی ہیں۔ اگر وہ مس کرتا ہے تو کورٹ آف انكوائري ہوتی ہے کہ آپ نے کیوں مس کیا؟ اور اگر دانستہ طور پر نہ ماریں تو یہ کورٹ آے اوفینس ہوتا ہے کہ آپ نے حکم کی خلاف ورزی کیوں کی۔'

انہوں نے کہا کہ 'میں اس طرح کے الزامات میں سے کسی ایک کا بھی حصہ نہیں بننا چاہتا تھا۔'

فریدہ سنگھ کو اس سے پہلے پتہ نہیں تھا کہ قیس حسین نے انھیں اس طرح کے ایک خط لکھا تھا۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا: 'مجھے پتہ چلا کہ جس پائلٹ نے میرے باپ کے ہوائی جہاز کو گرایا تھا وہ مجھے تلاش کر رہا ہے۔ مجھے یہ سن کر پہلے تو ایک جھٹکا سا لگا کیونکہ میں اپنے والد کی موت کے بارے میں مزید کچھ سننا نہیں چاہتی تھی۔'

'میرے دوست نے مجھے بلایا اور کہا کہ آپ کے نام سے اخبار' انڈین ایکسپریس' میں ایک خط شائع ہوا ہے اور میں نے فوری طور پر اپنا ای میل کھولا اور اسے پڑھ کر میں جواب دینے میں ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں کی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس خط میں کوئی لاگ لپیٹ نہیں تھا اور وہ دل سے لکھا گيا تھا۔

وہ کہتی ہیں: 'اس معاملے میں انھیں بہت افسوس تھا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا، یہ بذات خود ایک بڑی بات تھی، وہ ذاتی طور پر میرے والد کے خلاف نہیں تھے۔'

قیس کا کہنا ہے کہ 'ان کا جوابی ای میل بہت اچھا تھا۔ میں نے تو بس ابھی ایک قدم بڑھایا تھا لیکن انھوں نے کئی قدم آگے بڑھائے تھے۔۔۔'

فریدہ کا کہنا ہے کہ میں حیران ہوں کہ 46 سال کے بعد انھوں نے ایسا کیوں کیا: 'لیکن ایک بات میرے دماغ میں آئی کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی ہے تو کوئی تو مرہم لگانے کا کام کرے اور انھوں نے اس میں پہل کی۔'

'میں کوئی ایسی چیز نہیں لکھنا چاہتی تھی جس سے ان کو کو ئی تکلیف ہو۔۔۔ میں نے ایک منٹ بھی نہیں سوچا تھا کہ یہ پائلٹ کی غلطی ہے، وہ لڑائی میں لڑ رہا تھا، یہاں تک کہ سب سے بہتر لوگ بھی لڑائی میں وہ کر گزرتے ہیں جو وہ کرنا پسند نہیں کرتے۔'

'میں نے ان کو لکھا کہ لڑائی کے کھیل میں ہم سب پیادے ہوتے ہیں۔۔۔ میں نے ان کو لکھا تھا کہ میں امید کرتی ہوں کو اس کے بعد آپ کو سکون ملے گا۔'

بشکریہ: بی بی سی اردو