Aaj News

پیر, نومبر 25, 2024  
23 Jumada Al-Awwal 1446  

کیا یاسمین راشد این اے 120 کی تاریخ بدل سکتی ہیں؟

شائع 17 ستمبر 2017 09:14am
فائل فوٹو فائل فوٹو

پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 120 کا ضمنی انتخاب ملکی سیاسی منظر نامے پر مرکزی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔

ایک طرف حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن نہ صرف اپنی کھوئی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست واپس حاصل کر کے اپنی جماعت کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے موجود اندیشوں کو دفن کرنے کی کوشش کرے گی، دوسری طرف ان کے سیاسی حریف انھیں ایسا کرنے سے روکنے کے خواں ہیں۔

تاہم ن لیگ کو اس کے تین دہائیوں پرانے سیاسی گڑھ میں شکست دینا آسان نہ ہوگا۔ دوسری طرف تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکمراں جماعت کے لیے بھی این اے 120 سے باآسانی جیت جانا شاید مشکل ہوگا۔

رواں سال 28 جولائی کو پاکستان کی سپریم کورٹ کے فیصلے پر سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد خالی ہونے والی اس نشست پر ضمنی انتخاب کے لیے ن لیگ نے بیگم کلثوم نواز کو اپنا امیدوار مقرر کیا تھا۔

ان کے مدِمقابل ن لیگ کی روایتی حریف پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل میر جبکہ گذشتہ انتخابات میں ن لیگ کا سخت مقابلہ کرنے والی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی امیدوار یاسمین راشد ہیں۔

ن لیگ کی امیدوار کلثوم نواز کا انتخابی سیاست میں یہ پہلا قدم ہے۔ اس سے قبل وہ ن لیگ کی سیاست میں پسِ پردہ اپنا کردار ادا ضرور کرتی رہیں ہیں تاہم انتخابی سیاست کا براہِ راست حصہ نہیں بنیں۔

کلثوم نواز کے بطور امیدوار انتخاب کے فیصلے کو تجزیہ کار ن لیگ کے لیے مثبت قرار دیتے ہیں۔ اس کی بنیاد ان حقائق پر ہے کہ ان کے خلاف کرپشن کے الزامات نہیں، وہ ملکی سیاست کی پیچیدگیوں کو سمجھتی ہیں اور اس سے قبل ن لیگ کی قیادت اس دور میں کر چکی ہیں جب نواز شریف سنہ 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے بعد جیل چلے گئے تھے۔

بیگم کلثوم نواز عمر میں نواز شریف سے ایک برس چھوٹی ہیں۔ ان کا خاندان کشمیر سے تعلق رکھتا ہے جبکہ ان کی پیدائش لاہور میں ہوئی۔ وہ مشہورِ زمانہ پہلوان گاما کی نواسی بھی ہیں۔

ان کے چار بچے ہیں جن میں حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز کے ناموں سے تو پاکستان اور پاکستان کے باہر رہنے والے پانامہ کیس کے تناظر میں واقف ہیں جبکہ ان کی چوتھی اولاد عصمہ نواز ہیں جو پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی بہو ہیں۔

صحافی اور سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے بی بی سی کو بتایا کہ بقول مریم نواز شریف خاندان میں بیگم کلثوم نواز کے سیاسی تجزیے اور رائے کو ہمیشہ سے ہی اہمیت دی جاتی ہے۔

'میاں نواز شریف بھی ان کی باتیں بہت توجہ سے سنتے ہیں۔ میاں صاحب پر ان کا گہرا اثر رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کے بارے میں ان کی رائے ہی غالب ہوتی ہے اور جب وہ درست ثابت ہوں تو ظاہر ہے ان کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔'

این اے 120 کے ضمنی انتخاب کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے کے بعد بیگم کلثوم نواز علاج کی غرض سے لندن چلی گئیں تھیں جہاں ان میں کینسر کی تشخیص ہوئی۔ ان کے خاندان کے افراد کے مقامی ذرائع ابلاغ پر سامنے آنے والے بیانات کے مطابق وہ کامیاب علاج کے بعد تیزی سے رُو بہ صحت ہیں۔

ان کی اور شریف خاندان کے مرکزی سیاسی رہنماؤں کی غیر موجودگی میں کلثوم نواز کی انتخابی مہم ان کی صاحبزادی مریم نواز نے جاری رکھی۔ وہ کہاں تک کامیاب رہیں اس کا نتیجہ اتوار کی رات تک سامنے آ جائے گا۔

این اے 120 میں ن لیگ کو جس سیاسی حریف سے کٹھن مقابلے کا سامنا ہے وہ پاکستان تحریکِ انصاف کی یاسمین راشد ہیں۔

انھوں نے سنہ 2013 کے عام انتخابات میں اسی حلقے سے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے 91666 سے زائد ووٹوں کے مقابلہ میں 52321 ووٹ حاصل کیے۔

یاسمین راشد نہ تو سیاست میں نووارد ہیں اور نہ ہی اس حلقے کے لوگ ان سے اور ان کے خاندان سے ناواقف ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد لاہور کی جانی پہچانی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ایک ڈاکٹر اور گائناکالوجسٹ کے طور پر سنہ 2010 تک وہ طب کے شعبے میں خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں اور اب بھی وہ جز وقتی طور پر طبی تعلیم کے شعبے سے منسلک ہیں۔

سیاست سے ان کا تعلق بھی پرانا ہے۔ وہ ماضی کے منجھے ہوئے سیاستدان ملک غلام نبی کی بہو ہیں۔

سہیل وڑائچ کے مطابق ملک غلام نبی نے پاکستان موومنٹ میں اہم کردار ادا کیا تھا اور بعد میں ان کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔

لاہور کے اسی علاقے سے جس میں آج این اے 120 کا حلقہ واقع ہے ملک غلام نبی 1970 کا صوبائی انتخاب جیت کر صوبائی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔

ابتدا میں یاسمین راشد پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ منسلک رہ چکی ہیں اور سہیل وڑائچ کے مطابق پی پی پی کے حالیہ امیدوار فیصل میر کے ساتھ ملکر مقامی سیاست میں کردار بھی ادا کرتی رہی ہیں۔

تاہم سنہ 2013 کے عام انتخابات میں انھوں نے پی ٹی آئی کی طرف سے اس وقت دو بار کے وزیرِ اعظم اور ملک کی بڑی جماعت کے صدر نواز شریف کا مقابلہ کیا تھا۔ جہاں ان کی جماعت صوبہ پنجاب میں دوسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھری وہیں یاسمین راشد نے بھی ن لیگ کے گڑھ سے 50 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا تھا۔

اب سب کے ذہن مں سوال یہی ہے کہ کیا اتوار کو وہ این اے 120 کی تاریخ بدل سکتی ہیں اس لیے قومی اسمبلی کے اس حلقے میں تمام تر نظریں زیادہ تر ان ہی دو امیدواروں پر رہنے کا امکان ہے۔

بشکریہ: بی بی سی اردو