انسان رات کی تاریکی میں خوف کیوں محسوس کرتا ہے؟
جیسے جیسے رات کی تاریکی چھانے لگتی ہے ویسے ہی بعض انسانوں کے دلوں اور ذہن پر پر خوف کے سائے پھیل جاتے ہیں اور اندھیرے میں نکلتے ہی دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے اور ایسے میں کئی خوف انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں ۔
اسی خوف پر چین میں کی گئی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ انسان کے اندر یہ خوف اندھیرے کا نہیں بلکہ رات کا ہوتا ہے اسی لیے دن میں تاریکی کے باوجود انسان خوفزدہ نہیں ہوتا۔
چین کی یونیورسٹی میں کی گئی اس تحقیق کیلئے 120 خواتین کا انتخاب کیا اور انہیں 4 اوقات دن کی روشنی، دن کی تاریکی، رات کی تاریکی اور رات کی گہری تاریکی سے گزارا گیا اور ان کو کمپیوٹر اسکرین پر 100 فیصد خوف زدہ کردینے والی مناظر اور 50 عام مناظر دکھائے گئے جب کہ اس دوران کمرے کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرتے ہوئے نفسیاتی ڈیٹا کو ناپا گیا جیسے پسینے کا نکلنا جو کہ اسکن کونڈکٹینس ٹیسٹ کے ذریعے جانچا گیا جب کہ دل کی دھڑکن کو بھی سامنے رکھا گیا۔
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ عام تصاویر، دن اور رات کے درمیان میں آنے والی آوازوں پر شامل تحقیق میں خواتین نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا جب کہ خوفناک تصاویر دیکھ کر ان ہی خواتین نے رات کے وقت زیادہ خوف کا اظہار کیا جب کہ دن میں یہ خوف کچھ کم محسوس کیا گیا۔
تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ انسان کے دل میں تاریکی کا نہیں بلکہ رات کا خوف طاری ہوتا ہے اسی لیے کمرے میں ہونے کے باوجود رات میں آنے والی آوازیں اور ذہن میں بننے والی تصاویر اس کے خوف کو اور بھی بڑھا دیتی ہے۔
تحقیق کے مطابق رات میں انسانی جسم کا موڈ بہت حساس ہوجاتا ہے جو آپ کو محتاط بنا دیتا ہے اور ہلکی سے جنبش سے بھی جسم کسی انجانے خوف سے ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ حیاتیاتی سائیکل ہمارے ذہنوں میں موجود خوف کو نسل در نسل منتقل کرتا ہے اسی لیے ہمارے آباؤاجدا آج کے مقابلے میں ماضی میں زیادہ خطرناک وقت میں زندگی گزارتے تھے اسی لیے وہ رات کی تاریکی میں خوف محسوس کرتے تھے۔ تحقیق یہ بات ثابت ہوئی کہ رات میں خوف کے سگنل زیادہ ابھرتے ہیں جوذہن کے حساس حصوں میں خوف کے ردعمل کو بڑھا دیتے ہیں اور یوں انسان رات میں زیادہ ڈر اور خوف محسوس کرتا ہے۔
واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل امریکی سائنسدانوں نے انسانی ذہن کے اس حصے کا پتا چلایا تھا جو خوف پیدا کرتا ہے یا اسے کنٹرول کرتا ہے جب کہ یہ حصہ نیوران کلسٹر کے ذریعے کام کرتا ہے۔
بشکریہ ڈیلی میل
Comments are closed on this story.