Aaj News

منگل, نومبر 05, 2024  
02 Jumada Al-Awwal 1446  

کیا آپ کا کمپیوٹر خطرے میں ہے؟

شائع 16 مئ 2017 05:09am

_96052368_mediaitem96052367

دنیا بھر میں ہونے والے سائبر حملے کے بعد ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس ہفتے رینسم ویئر کے مزید کیس سامنے آ سکتے ہیں۔

بہت سے لوگ یہ پوچھ رہے ہیں کہ آخر ہو کیا رہا ہے اور تنظیم، ادارے، کمپنیوں اور عام لوگ کس طرح ان حملوں سے اپنے كمپيوٹروں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں؟

٭ سائبر حملہ دنیا کے لیے ایک انتباہ ہے: مائیکروسافٹ

٭ 99 ممالک غیرمعمولی سائبر حملے کی زد میں

یہ حملہ کس پیمانے پر کیا گیا؟

رینسم ویئر ایک ایسا پروگرام ہے جو کمپیوٹر پر موجود فائلوں تک رسائی روک دیتا ہے اور پھر بغیر تاوان ادا کیے صارف کی مشکل دور نہیں ہوتی۔ یورپی یونین کی پولیس يوروپول کے مطابق رینسم ویئر کوئی نئی چیز نہیں ہے، لیکن 'وانا كرائی' وائرس کا یہ حملہ اتنے بڑے پیمانے پر کیا گیا کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

اتوار کو یہ بتایا گیا کہ اس وائرس نے 150 ممالک میں دو لاکھ سے زیادہ کمپیوٹرز کو نشانہ بنایا ہے تاہم خدشہ یہی ہے کہ پیر کو جب لوگ دفاتر میں اپنے کمپیوٹرز کھولیں گے تو یہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔

رینسم ویئر وائرس کی کئی اقسام ہیں اور سائبر سکیورٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے انھیں بھی نئی زندگی ملتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس کو یہ حملہ جھیلنا پڑا تھا لیکن اختتام ہفتہ پر برطانیہ میں صحت کے شعبے سے منسلک ٹرسٹ کی مشینیں دوبارہ کام کرنے لگیں تاہم این ایچ ایس نے اب تک یہ معلومات نہیں دی ہیں کہ انھیں کیسے دوبارہ کارآمد بنایا گیا۔

تاوان طلب کرنے والا یہ وائرس بنانے والے افراد کے لیے بہت زیادہ منافع بخش ثابت نہیں ہوا ہے۔

انھوں نے ہر متاثرہ مشین تک رسائی دینے کے لیے 300 بِٹ کوائنز کا مطالبہ کیا تھا اور جب بی بی سی نے ان کے ورچوئل بٹوے پر نظر ڈالی تو اس میں 30 ہزار بٹ کوائنز ہی جمع کروائے گئے تھے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ زیادہ تر متاثرین نے ہیکرز کو رقم ادا نہیں کی۔

کیا آپ کا کمپیوٹر خطرے میں ہے؟

'وانا كرائی' وائرس صرف ان كمپيوٹرز کو اپنا شکار بناتا ہے جو ونڈوز آپریٹنگ نظام استعمال کرتے ہیں۔

اگر آپ اپنی ونڈوز اپ ڈیٹ نہیں کرتے، ای میل کھولتے یا پڑھتے وقت احتیاط نہیں برتتے تو آپ کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

اگرچہ گھریلو صارفین کے كمپيوٹرز کے اس حملے کا شکار ہونے کے امکانات نسبتاً کم بتائے جاتے ہیں۔

آپ اپنا آپریٹنگ سسٹم اپ ڈیٹ کر کے، فائر والز اور اینٹی وائرس کا استعمال کر کے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

آپ اپنے ڈیٹا کو باقاعدگی سے بیک اپ کریں تاکہ متاثر ہونے کی صورت میں آپ بغیر تاوان ادا کیے اپنے سسٹم کو اس کی مدد سے بحال کر سکیں۔

رینسم ویئر کا شکار ہونے والے افراد کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ تاوان کی رقم دینے پر بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ آپ کی فائلز ان لاک ہو جائیں گی۔

سائبر حملہ اتنی تیزی سے کس طرح پھیلا؟

اس رینسم ویئر کا نام 'وانا كرائی' ہے۔ بظاہر اسے ’وارم‘ نامی ایک کمپیوٹر وائرس کے ذریعہ پھیلایا گیا ہے۔

دوسرے کمپیوٹر وائرسز کے برعکس 'وانا كرائی' خود بخود ایک نیٹ ورک میں پھیل جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

دیگر وائرس پھیلاؤ کے معاملے میں انسانوں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ ان میں کسی ای میل کے ذریعے لوگوں کو ایک لنک پر کلک کرنے کے لیے اکسایا جاتا ہے۔

ایک بار 'وانا كرائی' آپ کے نیٹ ورک میں داخل ہو گیا تو وہ ایسی مشینوں کی تلاش شروع کر دیتا ہے جنھیں شکار بنایا جا سکتا ہے۔

اس رینسم ویئر سے بچا کیوں نہ جا سکا؟

مارچ میں مائیکروسافٹ نے اپنے ونڈوز آپریٹنگ نظام کی وہ کمزوریاں دور کرنے کے لیے ایک مفت 'پیچ' جاری کیا تھا جن سے رینسم ویئر فائدہ اٹھا سکتا تھا۔

'وانا کرائی' ایسی ہی ایک کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس کمزوری کی نشاندہی امریکہ کی قومی سلامتی ایجنسی نے کی تھی۔

جب اس کمزوری کی تفصیلات افشا ہوئیں تو بہت سے سائبر ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ اس کا نتیجہ ایک نئے رینسم ویئر کی تیاری کی شکل میں نکل سکتا ہے اور ان کی یہ پیشنگوئی دو ماہ میں ہی درست ثابت ہوگئی۔

ابتدا میں خیال تھا کہ اس کا نشانہ بننے والے ونڈوز ایکس پی استعمال کر رہے تھے جو کہ ونڈوز کا پرانا آپریٹنگ نظام ہے تاہم سرے یونیورسٹی کے سائبر سکیورٹی کے ماہر ایل وڈورڈ کا کہنا ہے کہ تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق ایسے صارفین کی تعداد بہت کم ہے۔

بڑی تنظیمیں اپنے آپریٹنگ نظام میں کوئی بھی سکیورٹی 'پیچ' انسٹال کرنے سے قبل اس بات کا جائزہ لیتی ہیں کہ وہ ان کے موجودہ نیٹ ورک سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں اور یہی ان کے انسٹال کیے جانے میں تاخیر کی وجہ بنتی ہے۔

حملے کے پیچھے کون لوگ ہیں؟

فی الحال اس بارے میں مصدقہ معلومات موجود نہیں لیکن کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کوئی انتہائی پیچیدہ سافٹ ویئر نہیں ہے۔

وہ 'کِل سوئچ' جس سے اس کا پھیلاؤ روکا گیا، اسے سائبر سکیورٹی کے ایک محقق نے اچانک ہی دریافت کیا اور ممکنہ طور پر اس کا مقصد پکڑے جانے پر وائرس کا کام بند کر دینا تھا۔

سائبر مجرموں کے لیے رینسم ویئر ایک پسندیدہ ہتھیار ہے کیونکہ اس کے ذریعے وہ تیزی سے رقم کما سکتے ہیں اور بٹ کوائن جیسی ورچوئل کرنسی کی وجہ سے سکیورٹی ایجنسیوں کا ان تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے.

اگرچہ یہ بات تھوڑی غیر معمولی ضرور لگتی ہے کہ مجرموں کا ایک گینگ تاوان جمع کرنے کے لیے بٹ كوائن کے بٹوے استعمال کر رہا ہے تاہم جتنے زیادہ بٹوے استعمال کیے جائیں گے اتنا ہی اس گروپ کو ڈھونڈنا مشکل ہوتا جائے گا۔

بشکریہ: بی بی سی اردو