وزیرِاعظم شہبازشریف نے اسلام آباد میں انتشار پھیلانے والوں کی نشاندہی کے لیے ٹاسک فورس قائم کردی، وزیرِداخلہ محسن نقوی سربراہ ہوں گے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اسلام آباد میں امن وامان کی صورتحال پر اہم اجلاس ہوا، اجلاس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بھی خصوصی شرکت کی۔
اعلیٰ سطح کے اجلاس میں وفاقی وزرا اور سکیورٹی اداروں کے سربراہان نے شرکت کی جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے بھی شرکت کی۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں انتشار پھیلانے والوں کی نشاندہی کے لیے ٹاسک فورس قائم کردی، وزیرِداخلہ محسن نقوی ٹاسک فورس کی سربراہی کریں گے جبکہ وفاقی وزرا اعظم نذیر تارڑ، احد چیمہ، عطا تارڑ اور سیکیورٹی فورسز کے نمائندے بھی فورس میں شامل ہوں گے۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ٹاسک فورس پرتشدد واقعات میں ملوث افراد کی نشاندہی کرے، قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دلوائی جا سکے۔
وزیراعظم نے کسی بھی قسم کے انتشار کو روکنے کے لیے وفاقی انسداد فسادات فورس بنانے کا بھی فیصلہ کرلیا جبکہ اجلاس میں وفاقی فورینزک لیب کے قیام کی منظوری بھی دی گئی۔
اجلاس میں اسلام آباد سیف سٹی منصوبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا گیا، اس کے علاوہ اجلاس میں وفاقی پراسیکیوشن سروس کو مضبوط کرنے بارے بھی فیصلہ کیا گیا۔
وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان الحمدللہ استحکام کی جانب گامزن ہے، پاکستان کے استحکام اور ترقی کے دشمنوں کے مزموم مقاصد کامیاب نہیں ہونے دیں گے، خیبر پختونخوا بہادر و غیور عوام کا صوبہ ہے، مٹھی بھر انتشاری، پر امن اور غیور پشتونوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔
قبل ازیں وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا سے آنے والے جتھے نے اسلام آباد میں وہ تماشا لگایا جسے بیان نہیں کرسکتا، پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت نہیں، فتنہ ہے اور تخریب کاری کا ایک جھتہ اور گروہ ہے، اس کے لیے اب ہمیں آگے بڑھنا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی زیرصدارت امن عامہ کے حوالے سے ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا سے جو جتھہ اسلام آباد آیا انہوں نے تباہی کی، حملوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شہید ہوئے، شرپسندوں نے احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ بھی کی، احتجاج سے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا، احتجاج سے 190 ارب روپے یومیہ کا پاکستان کو نقصان پہنچتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ جو تماشا لگایا گیا اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، گزشتہ 9 ماہ میں تیسری چوتھی بار لشکر کشی کی گئی ہے، 2014 سے پہلے ایسے ناپاک عزائم کا کوئی سوچ نہیں سکتا، 2014 کے دھرنے میں جو کیا گیا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، اس دھرنے کے باعث چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوا، بہت مشکل سےدوبارہ چینی صدر کے دورہ پاکستان کو ممکن بنایا گیا، اس سے بڑی پاکستان کے ساتھ اور کیا دشمنی ہوسکتی ہے؟
شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ نوازشریف کی کوششوں سے پاکستان میں اربوں ڈالروں کی سرمایہ کاری ہوئی، ایس سی او کانفرنس کے دوران چڑھائی کی گئی، اکتوبر میں چینی وزیراعظم کے دورے کے دوران بھی احتجاج کیا گیا، سعودی وفود کے دوروں کے دوران بھی ان کی جانب سے دھمکیاں دی جاتی رہیں، اس کے پیچھے ایک تخریب کاری کی سوچ ہے جو دن رات ان کو گائیڈ کرتے ہیں۔
’یہ پُرامن احتجاج نہیں، شدت پسندی ہے‘ صدر، وزیراعظم کا رینجرز اہلکاروں کی شہادت پر اظہار افسوس
انہوں نے کہا کہ بیلا روس کے صدر کے ساتھ دوطرفہ ملاقات کے دوران احتجاجیوں کے جلاؤ کا دھواں نظر آرہا تھا، جی ایچ کیو میں شہید جوانوں کی نماز جنازہ میں شرکت کی، 2014 سے پہلے ایسے ناپاک عزائم کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ دشمنان پاکستان اگر اس صورتحال کو خراب کرنا چاہتے ہیں تو کیا ہم انہیں ایسا کرنے دیں، ہمیں ہر چیز وہ کرنی چاہیے جس سے ہم دشمنان پاکستان کے ہاتھ نہ صرف روکیں بلکہ ان کو توڑ دیں۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ ایسے مواقع بار بار نہیں ملتے، اللہ نے ہمیں موقع دیا ہے، اس پر ہمیں پوری سنجیدہ سوچ اور عمل کے ساتھ آگے بڑھنا ہے کہ کس طرح ہم نے خیبر پختونخوا حکومت کی جو دن رات کی سازشیں ہیں، انہیں کوئی پروا نہیں کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں، ان کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ ہر چیز کو تہہ و بالا کردو، ہر چیز کو برباد کردو۔
ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں وفاقی حکومت کے سینئرز بیٹھے ہیں، آرمی چیف بیٹھے ہیں، ان کی پوری ٹیم بیٹھی ہے، سب نے مل کر بڑی کاوش کی، میں آپ سب کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکر گزار ہوں، اللہ نے ہمیں موقع دیاہے ، اس کے لیے ہم نے آگے بڑھنا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ یہ ایک سیاسی جماعت نہیں ہے، یہ ایک فتنہ ہے اور تخریب کاری کا ایک جھتہ اور گروہ ہے، اس کے لیے اب ہمیں آگے بڑھنا ہے، جتنے بھی تخریب کار ہیں، ان سب کے خلاف ایف آئی آرز کاٹی جائیں، ان کے خلاف ٹھوس بنیادوں پر قانونی کارروائی کی جائے۔
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ شومئی قسمت ہے کہ ہمیں آج یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے، یہ وطن کے ساتھ دشمنی ہے، یہ ہماری قومی ذمے داری ہے، اگر آج ان کا چہرہ نہیں دیکھائیں گے تو تاریخ ہمیں برے الفاظ میں یاد کرے گی۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے ان 8 ماہ میں اپنے صوبے کے عوام کے لیے کیا کام کیا، عوامی منصوبوں پر کتنی توجہ دی اور انہوں نے اس دوران اسلام آباد پر چڑھائی اور پاکستانی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے انہوں نے کیا کیا، کیا پاکستان کو ہم نے اس جھتے کے حوالے کرنا ہے، اس تخریب کاری کی پارٹی کے حوالے کرنا ہے یا پھر ہم نے پاکستان کو بنانا اور سنوارنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارا چنار میں قتل و غارت پر دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ جس کو حکومت ملی، وہ تحریک انصاف نہیں، تخریک انصاف ہے، انصاف کا قتل ہے یہ پارٹی، اس کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے، ان کو کوئی احساس نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پارٹی کا بانی عمران خان سر سے پاؤں تک، جھوٹ بولنے والا شخص ہے، یقین کریں میں نے پاکستان کی تاریخ میں اتنی مذموم سوچ کسی سیاسی جماعت یا شخص میں نہیں دیکھی، انہیں پارا چنار میں خون ریزی بند کرانے کا خیال نہیں آیا، اسلام آباد میں چڑھائی کرنی ہے، ان کو بس یہ پروا ہے کہ کس طرح سے پاکستان کو تباہ کرنا ہے، کس طرح سے ملک کی معیشت کو ڈبونا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ ہمیں یہ بات یقینی بنانی ہے کہ اس طرح کی صورتحال دوبارہ کبھی پیدا نہ ہو۔
واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی اور دیگر مطالبات کی منظوری کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا تھا۔
24 نومبر کو بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے پشاور سے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا اور 25 نومبر کی شب وہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے تھے تاہم اگلے روز اسلام آباد میں داخلے کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جھڑپ کے نتیجے میں متعدد افراد، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
26 نومبر کی شب بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور اور عمر ایوب مارچ کے شرکا کو چھوڑ کر ہری پور کے راستے مانسہرہ چلے گئے تھے، مارچ کے شرکا بھی واپس اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔
بدھ کو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا کے علاوہ سردار لطیف کھوسہ نے فورسز کے اہلکاروں کی ’مبینہ‘ فائرنگ سے ’متعدد ہلاکتوں‘ کا دعویٰ کیا تھا، تاہم وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے ان دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کچھ ہوا ہے تو ’ثبوت کہاں ہیں؟‘