معاشی اور دیگر مقاصد کے لیے بیرونِ ملک سفر اور بیرونِ ملک مستقل سکونت اختیار کرکے وہاں کی شہریت لینا عام بات ہے۔ دنیا بھر میں ایسے کروڑوں افراد ہیں جو اپنے اپنے آبائی ممالک سے نکل کر دوسرے ممالک میں بسے ہوئے ہیں اور شہریت حاصل کرکے وہاں کے باضابطہ شہری بن چکے ہیں۔
مسلم دنیا کے لاکھوں نوجوان بہتر معاشی اور معاشرتی امکانات کے حصول کے لیے غیر مسلم ممالک کا رخ کرتے ہیں، وہاں کام کرتے ہیں اور وہاں کی شہریت کے حصول کے لیے بھی سرگرداں رہتے ہیں۔
سعودی عرب کے ایک عالم نے عجیب و غریب فتوٰی جاری کیا ہے۔ شیخ عاصم الحکیم کا کہنا ہے کہ کسی بھی مسلم کے لیے اپنے مسلم ملک کو چھوڑ کر غیر مسلم ملک کی شہریت حاصل کرنا حرام ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک سوال کے جواب میں شیخ عاصم الحکیم نے لکھا کہ اگر کوئی مسلم کسی مسلم ملک کا باشندہ ہے تو اُس کے لیے غیر مسلم ملک کی شہریت اختیار کرنا کسی بھی اعتبار سے درست نہیں۔
اس فتوے نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچادی ہے۔ بہت سے مسلم صارفین نے سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے مسلم ملک میں انتہائی نامساعد حالات کا سامنا کر رہا ہو اور باعزت و پُرسکون زندگی بسر کرنا اُس کے ممکن نہ رہا ہو تو وہ کس طور اپنے ملک سے نکل کر کہیں بسے گا اور کیا یہ فتوٰی وہاں بھی اطلاق پذیر ہوگا۔
بہت سے لوگوں نے یہ بات بھی لکھی ہے کہ عرب ممالک میں جو مسلم افراد برسوں بلکہ دہائیوں تک محنت کرتے ہیں اُنہیں شہریت نہیں دی جاتی۔ ایسے میں پس ماندہ مسلم ممالک کے مسلم باشندوں کے لیے کہیں اور آباد ہونے کے حوالے سے کیا آپشن رہ جتا ہے؟
ایک شخص نے لکھا کہ میں 42 سال سے ایک عرب ملک میں مقیم ہوں مگر مجھے اب تک شہریت نہیں دی گئی۔ شیخ عاصم الحکیم یوٹیوب کے ذریعے ہونے والی کمائی کو بھی حرام قرار دے چکے ہیں۔