امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکی حکومت، فیڈرل بیورو آف پریزنس اور متعدد جیل حکام کے خلاف وفاقی عدالت میں ایک جامع مقدمہ دائر کیا ہے جس میں جیل کے عملے پر آئینی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مقدمہ تقریباً 61 صفحات پر مشتمل ہے اور دو ماہ قبل امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ برائے شمالی ٹیکساس میں دائر کیا گیا۔ مقدمہ ان کے وکلا نعیم ہارون سُکھیا، ماریا کری اور کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ نے دائر کیا ہے جس میں جنسی زیادتی، تشدد، طبی سہولتوں کی عدم فراہمی اور مذہبی امتیاز سے متعلق الزامات درج ہیں۔
شکایت میں عافیہ صدیق کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ 2010 میں ایف ایم سی کارسویل میں قید کے آغاز سے ہی انہیں بار بار جنسی حملوں اور جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ عافیہ صدیقی کا دعویٰ ہے کہ مرد محافظ انہیں معمول کی تلاشی کے بہانے ہراساں کرتے اور جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے تھے۔
مزید برآں، شکایت میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جب انہوں نے زیادتی کی اطلاع دی تو جیل کے عملے نے ان پر تیزابی محلول کا چھڑکاؤ کیا۔ ان کے وکلا نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ انہیں ناکافی طبی دیکھ بھال فراہم کی گئی، حالانکہ وہ PTSD اور دیگر جسمانی بیماریوں کا شکار ہیں جو امریکی حراست میں مبینہ تشدد کے دوران پیدا ہوئے۔
عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے حکومت نے امریکی صدر کو خط لکھ دیا
اس میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ عافیہ صدیقی کو اپنی مذہبی آزادی سے محروم کیا گیا۔ انہوں نے کئی بار امام سے روحانی رہنمائی کے لیے رسائی کی درخواست کی، لیکن ان کی درخواستیں مستقل طور پر نظر انداز کی گئیں۔
شکایت میں کئی ایسے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے جن میں ان کے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی، جیسے کہ مرد اہلکاروں کا ان کے نجی لمحات میں دیکھنا اور مذہبی اشیا ضبط کرنا۔ عافیہ صدیقی کو گزشتہ ایک دہائی سے جمعے کی نماز ادا کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔
یہ مقدمہ ایف ایم سی کارسویل میں وسیع پیمانے پر بد انتظامی کو اجاگر کرتا ہے، اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس میں بھی جیل کے عملے کی جانب سے خواتین قیدیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے متعدد واقعات کا انکشاف ہوا ہے۔ 2022ء میں فورٹ ورتھ اسٹار ٹیلیگرام کی تحقیقات نے بھی اسی طرح کے واقعات کو بے نقاب کیا۔
عافیہ صدیقی کی امریکا سے افغانستان حوالگی کی خبروں کا علم نہیں، دفتر خارجہ
وکلاء نعیم ہارون سکھیا نے کہا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے برسوں تک ناقابلِ تصور مصیبتیں جھیلیں اور ان کی حالت ہمارے قیدی نظام میں موجود نظامی مسائل کی یاد دہانی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ مقدمہ ان مسائل کی نشاندہی کرتا ہے جو قید خانوں میں خواتین کو درپیش ہیں۔
ماریا کری نے اس مقدمے کو نہ صرف ڈاکٹر عافیہ صدیقی بلکہ ان تمام خواتین کے لیے انصاف کے حصول کا ایک اہم قدم قرار دیا ہے جنہوں نے خاموشی سے ظلم برداشت کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ ان کی آواز بننے کی کوشش ہے جو ظلم کے خلاف کھڑی ہو رہی ہیں۔
کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ نے اس مقدمے کے بین الاقوامی اثرات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ امریکا انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی وابستگی کو برقرار رکھے، خاص طور پر جب دنیا اسے دیکھ رہی ہو۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے مقدمات انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اہم ہیں اور ان کی سماعت دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بن سکتی ہے۔
اس دوران، امریکی فیڈرل بیورو آف پریزنس نے زیرِ التواء مقدمے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔