پانچ کروڑ سے زائد بنگلہ دیشیوں کی ذاتی معلومات کی خلاف ورزی کا معاملہ سامنے آنے کے بعد اسے ’عالمی سائبر عدم تحفظ کا بحران‘ قرار دیا جارہا ہے۔
ایک سرکاری دفتر نے ہفتے کے روز انادولو کو بتایا کہ سرکاری ویب سائٹ پر سامنے آنے والی ان معلومات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
امریکی ہائی ٹیک آن لائن پورٹل ٹیک کرنچ کے مطابق یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی جب بِٹ کریک سائبر سیکیورٹی سے تعلق رکھنے والے وکٹر مارکوپولوس نے 27 جون کو ان لیکس کا انکشاف کیا۔
سائبر سکیورٹی کے ماہر نے دعویٰ کیا کہ ٹیک کرنچ نے فوری طور پر بنگلہ دیش ای گورنمنٹ کمپیوٹر انسیڈنٹ رسپانس ٹیم (بی جی ڈی ای جی او وی سی آئی آر ٹی) سے رابطہ کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
ذاتی معلومات میں نام، ٹیلی فون نمبر، ای میل ایڈریس اور قومی شناختی کارڈ (این آئی ڈی) نمبر شامل تھے اور یہ تماممعلومات سرکاری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔
ٹیک کرنچ کا کہنا ہے کہ ’لیک ہونے والا ڈیٹا متاثرہ سرکاری ویب سائٹ پر پبلک سرچ ٹول سے پوچھ گچھ کے ایک حصے کا استعمال کرتے ہوئے جائز ہے۔‘
ٹیک کرنچ نے ویب سائٹ کی شناخت فراہم نہیں کی کیونکہ ڈیٹا اب بھی آن لائن دستیاب ہے۔
بنگلہ دیش میں 18 سال یا اس سے زائد عمر کے ہر شہری کو قومی شناختی کارڈ جاری کیا جاتا ہے جو ہر شہری کو ایک منفرد شناختی کارڈ فراہم کرتا ہے۔ یہ کارڈ لازمی ہے اور شہریوں کو کئی خدمات تک رسائی دیتا ہے، جیسے ڈرائیونگ لائسنس، پاسپورٹ، زمین کی خرید و فروخت، بینک اکاؤنٹ کھولنا اور دیگر۔
مارکوپولوس نے کہا کہ اعداد و شمار تلاش کرنا بہت آسان تھا۔
بی جی ڈی ای -جی او وی سی آئی آر ٹی کے تعلقات عامہ کے افسر (آئی ٹی) سوکانتا چکرورتی نے انادولو کو بتایا کہ ان کی کمپنی اس خلاف ورزی کی جانچ کر رہی ہے اور تجزیہ کر رہی ہے کہ ’ممکنہ‘ ڈیٹا لیک کس مقصد سے ہوا۔
سوکانتا چکرورتی کا کہنا ہے کہ ، ’ہم اس پرکام کر رہے ہیں. ہماری تکنیکی ٹیم ہمارے عالمی شراکت داروں کی مدد سے پورے واقعے کی قریب سے نگرانی اور جانچ پڑتال کر رہی ہے۔ یہ سائبر سیکورٹی کا مسئلہ ہے جو دنیا بھر میں ہر منٹ اپ ڈیٹ ہو رہا ہے۔ لہٰذا اسے کسی بھی صارف کے ذریعے بے نقاب کیا جا سکتا ہے‘۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ متاثرین کو ڈیٹا لیک ہونے کے بارے میں فکرمند نہیں ہونا چاہئے۔
اس طرح کے ڈیٹا لیک کے واقعات دنیا بھر میں اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے۔ لہٰذا یہ سائبر سکیورٹی پر اہلیت یا اہلیت کا سوال نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے ہم باہر نہیں ہیں۔
سنہ 2016 میں ہیکرز نے فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک کے اکاؤنٹ سے تقریبا ایک ارب ڈالر چوری کیے تھے جو بنگلہ دیش کے مرکزی بینک سے تعلق رکھتے تھے۔ بنگلہ دیش خوش قسمت تھا کہ ہیکرز نے تاریخ کی سب سے بڑی سائبر چوری کے دسویں حصے سے بھی کم رقم حاصل کی۔
تاہم بنگلہ دیش نے اس رقم کی وصولی کیلئے بہت کم پیش رفت کی ہے۔