ہاتھوں کی لکیروں کو اکثر توہم پرست لوگ قسمت سے جوڑتے ہیں، کئی شعبدہ باز ایسے ہیں جو لوگوں کو ہاتھوں کی لکیریں پڑھ کر قسمت کا حال بتاتے ہیں اور لوگ ان پر یقین کر کے ناصرف اپنا پیسہ بلکہ وقت اور ذہنی حالت کو خراب کرتے ہیں۔
کوئی سائنس ہاتھوں کی لکیروں سے قسمت کا حال بتانے کے دعوے کی تائید نہیں کرتی، تو اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ہاتھوں کی لکیروں میں قسمت نہیں لکھی تو ان کے بننے کا مقصد کیا ہے؟
ارتقائی حیاتیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری ہتھیلیوں میں لکیریں حمل کے 12 ہفتوں کے دوران رحم میں بنتی ہیں اور پیدائش کے وقت بچے کے ہاتھوں پر موجود ہوتی ہیں۔
سائنسی طور پر ماہرین کا کہنا ہے کہ ہتھیلی پر لکیریں ”پامر فلیکسیون کریسز“ کہلاتی ہیں، اور ہاتھ کی جلد کو کھنچنے اور بھینچنے میں مدد کرتی ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ لکیریں بعض طبی حالات کی شناخت میں بھی مدد کر سکتے ہیں۔
یہ لکیریں ہمیں آسانی سے اپنی مٹھیوں کو کھولنے اور بند کرنے کے قابل بناتی ہیں۔
جب آپ اپنا ہاتھ بھینچتے ہیں، تو ہتھیلی کی لکیریں جلد کو بغیر کسی پریشانی آسانی سے مڑنے میں مدد کرتی ہیں، اور اشیاء کو پکڑنے میں دشواری کو ختم کرتی ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ شاید اسی وجہ سے جہاں انگلیوں اور انگوٹھے کی ہڈیاں آپس میں ملتی ہیں وہاں گہری کریز موجود ہوتی ہیں۔
آپ کی ہتھیلیوں پر کریز کی موٹائی اور تعداد خاندانی تاریخ اور نسل جیسے عوامل پر بھی منحصر ہے۔
زیادہ تر لوگ اپنی ہتھیلی پر تین اہم کریزوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ حالانکہ موٹائی، تعداد اور ان کا نمایاں ہونا ہمارے جینز پر منحصر ہے۔
ایسے واقعات بہت کم ہوتے ہیں جب کوئی شخص تین کے بجائے ہتھیلی کے اوپری حصے میں صرف ایک غالب کریز کے ساتھ پیدا ہو۔
ایسا 30 میں سے ایک شخص کے ساتھ ہوسکتا ہے اور اسے ”سنگیولر پامر انکریز“ کہا جاتا ہے۔
اگرچہ عام طور پر یہ کسی بھی طبی طور پر کسی خرابی کی علامت نہیں ہے، لیکن یہ کبھی کبھی ڈاؤن سنڈروم، فیٹل الکحل سنڈروم، ٹرنر سنڈروم، آرسکوگ سنڈروم، اور روبیلا سنڈروم کی نشاندہی کرتا ہے۔