اللہ کی قدرت ہے کہ اس نے کسی بھی فنگر پرنٹ (انگلی کا نشان) ایک جیسا نہیں بنایا، یہی وجہ ہے کہ یہ شناخت کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔
فرانزک سائنس دان اور فنگر پرنٹ ماہر سیمونا فرانسس کے مطابق، کسی بھی دو انسانوں کے فنگر پرنٹس ایک جیسے نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ ایک جیسے جڑواں بچون کے فنگر پرنٹس بھی الگ ہوتے ہیں۔
سیمونا فرانسس کا کہنا ہے کہ دو افراد کے ایک جیسے فنگر پرنٹس ہونے کا امکان 64 بلین میں سے ایک ہے۔“
انگلیوں کے نشان قدیم زمانے سے بطور دستخط استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اُس وقت فریقین کے درمیان اہم لین دین کے لیے مٹی کی گولیوں پر انگلیوں کے نشانات کو دستخط کی شکل کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔
ہسٹری ڈیلی کے مطابق، 14ویں صدی تک یہ مانا جاتا تھا کہ کوئی بھی دو انگلیوں کے نشانات ایک جیسے نہیں تھے۔
تاہم، 1856 کے بعد انگلیوں کے نشانات کا استعمال شناخت کی ایک شکل کے طور پر استعمال شروع ہوا۔
سر ولیم ہرشل نامی ایک برطانوی ایڈمنسٹریٹر ہندوستان میں کام کرتے تھے، اور معاہدوں کو مستند بنانے کے لیے فنگر پرنٹس کو شناخت کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
اس کے چند دہائیوں بعد عدالت میں کسی مدعا علیہ کو سزا سنانے کے لیے فنگر پرنٹس کا استعمال کیا گیا۔
1910 میں ایک شخص نے نادانستہ طور پر جرم کی جگہ پر فنگر پرنٹ چھوڑ دیا، اور یہ اس کے مقدمے کی سماعت کے دوران اہم ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔
1910 میں سیاہ فام تھامس جیننگز کو چھ ہفتے قبل ہی الینوائے کی جیل سے رہا کیا گیا تھا، لیکن 19 ستمبر 1910 کو رات دو بجے کے قریب وہ کلیرنس ہلر کے گھر میں داخل ہوئے۔ گھر میں ہلر، ان کی بیوی اور بچے تھے جو سو رہے تھے۔
الینوائے کورٹس کے ریکارڈ کے مطابق جیننگز بڑی بیٹی کلیریس کے بیڈ روم میں داخل ہوئے لیکن وہ اٹھ گئی اور چیخنا شروع کر دیا۔ کلیریس کی چیخوں سے کلیرنس بیدار ہوئے اور فوراً اپنی بیٹی کے کمرے میں پہنچے اور گھسنے والے کا مقابلہ کیا۔
جھگڑے کے دوران دونوں آدمی سیڑھیوں سے نیچے گرے، اور کلیریس نے کہا کہ اس نے تین گولیوں کی آوازیں سنیں۔
گھر میں گھسنے والا بھاگ گیا اور کلیرنس کو اس کے گھر کے سامنے والے دروازے سے خون بہتا نظر آیا۔
سمتھسونین میگزین کے مطابق پڑوسیوں نے فوراً پولیس کو فون کیا۔
انہوں نے جیننگز کو ہلر کے گھر سے ایک میل سے بھی کم فاصلے پر دھر لیا۔ اس کے کپڑے خون آلود اور پھٹے ہوئے تھے اور اس کےپاس سے ریوالور بھی برآمد ہوا۔
جب حکام نے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا تو انہوں نے دریافت کیا کہ جیننگز نے اپنے فنگر پرنٹ ریلنگ پر چھوڑ دئے تھے، جسے حال ہی میں پینٹ کیا گیا تھا۔
مبینہ طور پر انہوں نے دھکم پیل کے دوران اس ریلنگ کو تھاما تھا۔ حکام نے فنگر پرنٹ کی تصاویر لیں اور اسے ثبوت کے طور پر محفوظ رکھنے کے لیے ریلنگ کاٹ دی۔
شکاگو ٹریبیون کے مطابق ریلنگ پر موجود فنگر پرنٹ کا موازنہ تھامس جیننگز کے فنگر پرنٹس سے کیا گیا اور اسی طرح کی شناخت کے 33 مزید پوائنٹس دریافت کئے۔
تھامس جیننگز کے مقدمے کی سماعت سے قبل امریکا میں عدالت میں کبھی بھی فنگر پرنٹس کو بطور ثبوت استعمال نہیں کیا گیا تھا، لیکن جج نے مدعا علیہ کے وکیل کے اعتراض کے باوجود استغاثہ کو ایسا کرنے کی اجازت دے دی۔
شکاگو ٹریبیون کے 6 نومبر 1910 کے ایک اخباری مضمون میں بتایا گیا کہ کئی ماہرین کو انگلیوں کے نشانات کے بارے میں عدالت میں گواہی دینے کے لیے بلایا گیا تھا۔
شکاگو کے حکام، ایک امریکی حکومت کے تفتیش کار، اور کینیڈا کے ایک انسپکٹر نے ریلنگ پر موجود فنگر پرنٹ اور جیننگز کے فنگر پرنٹ کے درمیان مماثلت کی تصدیق کی۔
ایک ساتھ بہ پہلو موازنہ کیا گیا، اور اسی طرح کے نکات کی طرف جیوری کو متوجہ کیا گیا۔ جیوری کے لیے جیننگز کو مجرم قرار دینے کے لیے ماہرین کی شہادتیں کافی تھیں۔
جیننگز کے وکلاء نے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کی، لیکن الینوائے سپریم کورٹ نے سزا کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ، ”عدالتیں اس قسم کے شواہد کو تسلیم کرنے کا جواز رکھتی ہیں۔“
جیننگز کی اپیلیں بالآخر ختم ہوگئیں، اور انہیں 1912 میں پھانسی کے تختے پر بھیج دیا گیا۔