Aaj Logo

شائع 18 جولائ 2022 04:00pm

خواتین اور مردوں کا ساتھ گھومنا ہمیں ہرگز برداشت نہیں، سابق سینیٹر مولانا عبدالرشید

پشاور: خیبر پخوتنخوا کے ضلع باجوڑ میں مقامی جرگے نے خواتین کی سیر و تفریح کے مقامات پر جانے پر پابندی عائد کردی ہے۔

تحصیل سلارزئی میں مقامی عمائدین اور سیاسی رہنماؤں نے جرگہ میں فیصلہ کیا ہے کہ سیاحتی مقامات پر خواتین کی آمد پر مکمل پابندی ہوگی۔

جرگہ میں ہونے والے فیصلوں سے متعلق سابق سینیٹر مولانا عبدالرشید نے کہا کہ “سیاحتی مقامات میں خواتین کا آنا اور مردوں کے ساتھ گھومنا ہماری روایات کی خلاف ورزی ہے۔ “

مولانا عبدالرشید نے کہا کہ خواتین اور مردوں کا ساتھ گھومنا ہم ہرگز برداشت نہیں کریں گے، ہم نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ خواتین کے سیاحتی مقامات پر آنے پر پابندی ہوگی۔“

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں مولانا عبدالرشید نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں باجوڑ میں شعبہ سیاحت ترقی کرے، لیکن سیاحت کے نام پر فحاشی اور بے حیائی کی کسی صورت اجازت نہیں دے سکتے۔

سابق سینٹر نے مزید کہا کہ “ہم قانون ہاتھ میں نہیں لیتے بلکہ یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے، اگر حکومت کوئی اقدامات نہیں اٹھاتی تو پھر قوم خود آگے آئے گی۔”

بعد ازاں مولانا عبدالرشید نے جرگہ کا فیصلہ سناتے ہوئے وہاں موجود تقریباً 400 افراد سے ان فیصلوں کی منظوری بھی لی۔

قبائلی روایات خواتین کوآزادی نہیں دیتیں، فیصلہ آئین یا قانون کے خلاف نہیں، مولانا عبدالرشید

جمیعت علماء اسلام (ف) باجوڑ کے امیر اور جرگے کا فیصلہ سنانے والے سابق سنیٹر مولانا عبدالرشید نے آج نیوز کو بتایا کہ پہلے بھی خواتین کی بے پردگی کے چند واقعات رونما ہوئے تھے۔

سابق سینیٹر کا کہنا تھا کہ قبائلی روایات بھی خواتین کو اس طرح آزادی نہیں دیتیں اس لیے جرگہ نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا۔

مولانا عبدالرشید نے بطور ضلعی امیر جے یو آئی (ف) جرگے کے فیصلوں کی حمایت بھی کردی۔

انہوں نے کہا کہ فیصلہ کوئی آئین یا قانون کے خلاف نہیں ہے، ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے روایات کے مطابق اقدامات کا مطالبہ کرے۔

جرگے کے فیصلے کو مقامی مصنف نے انتہائی نامناسب قرار دیا

ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے اور باجوڑ کی تاریخ پر کتاب لکھنے والے مصنف اور ادیب مولانا خانزیب نے خواتین پر پابندی سے متعلق فیصلے کو انتہائی نامناسب قرار دیا ہے۔

مولانا خانزیب نے آج نیوز کو بتایا کہ باجوڑ کی اپنے روایات ہیں، جہاں خواتین مردوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ باجوڑ روایات کے مطابق خواتین ہر اس جگہ جا سکتی ہیں جہاں مرد جاتے ہیں۔

انہوں نے باجوڑ کے تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جرگہ قومی مسائل پر منعقد ہوتے ہیں لیکن تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔

مولانا خانزیب نے کہا کہ ایسے فیصلے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے کئے جارہے ہیں، جس سے باجوڑ کا ایک منفی تاثر جائے گا۔

پہاڑی علاقوں میں 80 فیصد خواتین سے مردوں والے مشقت کے کام لیے جاتے ہیں، مقامی صحافی

باجوڑ سے تعلق رکھنے والے صحافی عبدالرحمان کا ماننا ہے کہ پہاڑی علاقوں میں 80 فیصد سے زائد خواتین سے محنت و مشقت کا کام لیا جاتا ہے۔

عبدالرحمان نے کہا کہ یہ فیصلہ بالکل سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کیا گیا، کیونکہ چند سیاسی جماعتوں کے آپس کے اختلاف ہیں۔

انہوں نے عمائدین سے مطالبہ کیا کہ باجوڑ میں ایک جرگہ اس پر ہونا چاہئیے کہ خواتین سے مشقت کا کام نہ لیا جائے اور وراثت میں حصہ نہ دینے والوں کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے گا۔

باجوڑ میں بھی خواتین پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے، ڈپٹی کمشنر باجوڑ

ڈپٹی کمشنر باجوڑ فہد وزیر نے آج نیوز کو بتایا کہ آئین پاکستان کے مطابق ہر شہری کو اجازت ہے کہ وہ جہاں جانا چاہے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح باجوڑ میں بھی خواتین پر کسی قسم کی پابندی نہیں۔

ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ اس قسم کے فیصلوں کی کوئی حیثیت نہیں، ایسے لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکتی ہے۔

خیال رہے کہ ڈپٹی کمشنر باجوڑ نے اس سے قبل بازار میں خواتین کی پابندی سے متعلق خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ معاملے میں ملوث دو افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ بھی اگر کوئی غیرقانونی فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کے خلاف بھی قانون حرکت میں آئے گا۔

Read Comments