Aaj Logo

اپ ڈیٹ 17 دسمبر 2019 06:11am

جب میزائل کے ذریعے خطوط کو بھیجنے کا کامیاب تجربہ ہوا

کیا آپ یقین کریں گے کہ ایک ملک نے چند دہائیوں قبل خطوط کی تیز ترین ترسیل کے لیے میزائلوں کا سہارا لیا؟

اسمتھسونین میگزین کے مطابق سنہء 1950 کی دہائی میں جب امریکا اور روس کے درمیان خلائی دوڑ کا آغاز اور میزائلوں پر کام ہونے لگا تو امریکی حکومت نے پرواز کی اس ٹیکنالوجی کو صرف فوج تک محدود رکھنا مناسب نہیں سمجھا، بلکہ اسے خطوط پہنچانے کا تیزترین ذریعہ بنانے کا ارادہ کیا گیا۔

امریکا کے پوسٹل سروسز ادارے نے خطوط کو میزائل میل کے ذریعے بھیجنے کی پوری پوری کوشش بھی کی اور اس میں کسی حد تک کامیابی بھی حاصل کی۔

جون 1959 میں امریکی بحریہ نے امریکی ساحل سے سو میل دور بین الاقوامی پانیوں میں تعینات ایک آبدوز یو ایس ایس باربیرو سے 3 ہزار خطوط ایک گائیڈڈ میزائل کے ذریعے فلوریڈا کے علاقے مے پورٹ میں واقع نیول ائیر اسٹیشن پر بھیجے۔

چھتیس فٹ کے اس میزائل نے وارہیڈ چیمبر میں 2 دھاتی ڈبوں میں محفوظ ان خطوط کو آبدوز سے اس بحری مرکز پر 22 منٹ میں پہنچا دیا۔

ان خطوط پر معمول کے ڈاک ٹکٹ بھی تھے جبکہ بائیں جانب لکھا تھا پہلی آفیشل میزائل میل۔

پوسٹل سروسز نے میزائل کے ذریعے خطوط کی کامیاب ترسیل پر خوشی کا اظہار بھی کیا تھا کیونکہ اس سے قبل یہ ادارہ تیز ترین ترسیل کے لیے اس سے ملتے جلتے متعدد طریقوں کو آزما چکا تھا اور کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

ویسے میزائل کے ذریعے خطوط کی ترسیل میں ‘ترسیل’ کا لفظ بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا کیونکہ ان میں سے بیشتر خط بعد میں ایک پوسٹ آفس میں گئے اور معمول کے مطابق انہیں لوگوں کے پاس پہنچایا گیا کیونکہ 3 ہزار افراد کو ان خطوط کے لیے نیول بیس میں بٹھانا ممکن نہیں تھا۔

اس وقت کے پوسٹ ماسٹر جنرل آرتھر سمرفیلڈ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ‘اب ہم جانتے ہیں کہ ہم ایسا کرسکتے ہیں، ہم اس بارے میں بات چیت کرکے تعین کریں گے کہ یہ طریقہ کار کس طرح اور کن شرائط کے مطابق قابل عمل ہوگا’۔

مگر اس کو کبھی عملی شکل نہیں دی جاسکی کیونکہ آرتھر فیلڈ کے جانشین جے ایڈورڈ ڈے نے پروگرام کو ختم کرتے ہوئے کہا کہ میزائل کے ذریعے بھیجے گئے بیشتر خطوط کو مطلوبہ پتے تک پہنچنے میں 8 دن لگے اور ترسیل کا عمل راکٹ اسپیڈ سے نہیں ہوا۔

Read Comments