نئی دہلی: بھارت کے دونوں ایوانوں سے شہریت کا متنازع ترمیمی بل (سی اے بی) منظور ہوگیا ہے، لیکن اسے ملک اور بیرون ملک کے مختلف گوشوں میں مسلم مخالف بل کہا جا رہا ہے اور اسی لیے اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کر دیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ بھارتی حکومت نے لاکھوں مسلمانوں کو شہریت کے مساوی حق سے محروم رکھنے کے لیے گراؤنڈ تیار کرنا شروع کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ مذہبی آزادیوں پر امریکا کی وفاقی کمیشن نے شہریت کے بل کو ایک غلط سمت میں خطرناک قدم قرار دیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے لیکن اس سے بین الاقوامی سطح پر ایک پیغام جاتا ہے کہ بھارت نے یہ قانون اس لیے بنایا کیونکہ اس کے پڑوسی ممالک میں اقلیتیں تشدد کا شکار ہیں۔
بدھ کے روز ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بل پیش کرتے ہوئے بھارت کے وزیر داخلہ اور اس بل کے روح رواں امت شاہ نے کہا کہ یہ بل مسلم مخالف نہیں ہے اور نہ ہی مسلمانوں کو اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت ہے لیکن انھوں نے پڑوسی ممالک میں اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی کی بات کی۔
اس سے قبل جب لوک سبھا میں اس بل کو پیش کیا گیا تو کانگریس اور دیگر جماعتوں نے اس کی کھلی مخالفت کی لیکن وہاں بی جے پی کو اکثریت حاصل تھی، جبکہ بدھ کے روز اسے راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل نہیں تھی تاہم اس بل کو منظور کر لیا گیا۔
بعض جماعتوں نے اس میں ترمیم کی بات کی تو بعض نے اسے مخصوص کمیٹی کے سامنے نظر ثانی کے لیے پیش کرنے کی دلیل دی۔
بل کی مخالفت کرنے والوں نے اسے نہ صرف مسلمانوں کے خلاف قرار دیا بلکہ بھارتی آئین کی روح کے منافی اور سیکولرزم سے متصادم قرار دیا۔
بھارت نے سنہ 1955 میں شہریت کا قانون متعارف کرایا تھا جس میں وقتاً فوقتاً ترامیم کی گئی تھی۔ حالیہ ترمیم میں بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کی چھ اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھارتی شہریت دیے جانے کی بات کی گئی ہے۔
ان مذہبی برادریوں میں ہندو، بودھ، جین، پارسی، مسیحی اور سکھ شامل ہیں لیکن مسلمانوں کو اس سے باہر رکھا گیا ہے یعنی ان ممالک سے آنے والے مسلمانوں کو بھارت میں شہریت حاصل کرنے کا حق نہیں ہوگا۔
بھارت میں شہریت حاصل کرنے کا اب تک یہ قانون تھا کوئی بھی شخص بھارت میں 11 سال گزار کر شہری بننے کا اہل ہو جاتا تھا اور اگر وہ شہریت کے لیے درخواست دے تو حکومت اسے منظور کر سکتی تھی۔ لیکن نئے قانون کے تحت پڑوسی ممالک پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کی اقلیتی برادریوں کو چھوٹ دی گئی ہے اور 11 سال کی مدت کو کم کرکے پانچ سال کر دی گئی ہے۔
اس سے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والی مذکورہ برادریاں مستفیض ہو سکیں گی جو 31 دسمبر سنہ 2014 سے قبل بھارت آئیں۔ بھارت کے ایک انٹیلی جنس ادارے کے مطابق اس سے ابھی 30 ہزار سے زیادہ لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
مودی حکومت کی کابینہ نے اس بل کو چار دسمبر کو منظور کیا جبکہ نو دسمبر کو یہ لوک سبھا میں منظور ہو گیا اور پھر 11 دسمبر کو راجیہ سبھا میں بھی منظور ہو گیا۔
اس نئے قانون کی مخالفت کرنے والوں نے اسے آئین کے آرٹیکل پانچ، دس، چودہ اور پندرہ سے متصادم قرار دیا ہے۔
کانگریس کے رکن پارلیمان ادھیر رنجن نے کہا کہ یہ بل بھارت کے آئین کی مختلف شقوں کے خلاف ہے۔ بھارت آئین کی روح سے ایک سیکولر ملک ہے جہاں مذہب کی بناد پر تفریق اور امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا اور اس ترمیمی بل میں مسلمانوں کو واضح طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔
جب بھارت کا آئین 26 جنوری سنہ 1950 کو نافذ کیا گیا تو اس میں بھارت کی شہریت کی تعریف جس طرح کی گئی اسے آرٹیکل پانچ میں بیان کیا گیا ہے جس کی رو سے جو شخص بھارت میں پیدا ہوا، جس کے والدین میں سے کوئی ایک بھارت میں پیدا ہوئے یا جس نے آئین کے نفاذ سے قبل پانچ سال مسلسل بھارت میں گزارے وہ بھارت کا شہری ہوگا۔
آرٹیکل 14 اور 15 میں آئین کی نظر میں مساوات کا ذکر ہے یعنی قانون کی نظر میں بھارت کی سرزمین پر کوئی بھی شخص مساوی حقوق کے تحفظ سے محروم نہیں۔ آرٹیکل 15 میں مذہب، ذات پات، نسل، جنس، جائے پیدائش یا ان میں سے کسی بھی بنیاد پر غیر امتیازی سلوک کی بات کی گئی ہے۔
اس طرح قانون دانوں کا کہنا ہے کہ ترمیم میں چھ برادریوں کا ذکر کر کے اور مسلمانوں کو اس میں شامل نہ کر کے اس کی مخالفت کی گئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر چہ یہ بل دونوں ایوانوں سے پاس ہو گیا لیکن سپریم کورٹ میں اس کا جائز قرار پانا مشکل ہوگا کیونکہ یہ براہ راست مسلم مخالف ہے اور آئین سے متصادم بھی۔
بظاہر یہ بل مسلم مخالف نہیں ہے لیکن کشمیر سے ایوان بالا کے رکن پارلیمان فیاض احمد میر نے کہا کہ 'جب سے یہ سرکار بنی تب سے ہم دیکھ رہے ہیں، چاہے وہ ٹرپل طلاق بل ہو، چاہے وہ 370 کا معاملہ ہو، چاہے آج جو یہ بل لایا گیا ہو، اس بل کو جو لانے کا طریقہ ہے، اس میں سیدھا ایک کمیونٹی، جس سے میں بھی آتا ہوں، مسلم کمیونٹی کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں پاکستان، افغانستان یا بنگلہ دیش سے اب کوئی مسلمان نہیں آئے گا کیونکہ انھوں نے دیکھ لیا ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست کے ساتھ کیا ہوا۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بل کو اگر این آر سی کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے تو یہ بل مسلم مخالف بل ہے۔
بھارت نے حال ہی میں ریاست آسام میں نیشنل رجسٹر آف سیٹیزن نافذ کیا یعنی ریاست کے شہری کون ہیں اس کی نشاندہی کرائی جس میں تقریباً 20 لاکھ افراد بھارتی شہریت کی فہرست سے باہر ہو گئے جس میں ہندو مسلمان دونوں شامل ہیں اور اکثریت ہندؤں کی بتائی جا رہی ہے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس ترمیمی بل سے ہندوؤں کو تو شہریت دے دی جائے گی لیکن برسوں سے آباد مسلمانوں کو محض دستاویزات کی کمی کے سبب غیر شہری، غیر ملکی، غیر قانونی در انداز قرار دے کر کیمپوں میں رکھا جاسکتا ہے۔
کانگریس کے رکن آنند شرما نے ایوان بالا میں اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی مخالفت کی وجہ 'سیاسی کے بجائے آئینی اور اخلاقی ہے۔' انھوں نے کہا ابھی جو حراستی کیمپ ہیں ان کی حالت انتہائی خستہ ہے، شرم آتی ہے بھارت پر کہ 21 ویں صدی میں انسانوں کو اس طرح رکھا جا رہا ہے، بچوں کو ماؤں سے دور، ماؤں کو بچوں سے دور، کوئی سہولت نہیں، 600 لوگ پانچ کمروں میں، پانچ نلکے، انکار کریں اس سے کہ یہ باتیں غلط ہیں، اور آپ جو پورے ملک میں این آر سی کی بات کہہ رہے ہیں تو غیرمحفوظ ہونے کا احساس ہے لوگوں میں۔ یہ اس لیے ہے کہ کہا جاتا ہے، آپ اس کا اعتراف کریں یا انکار کریں، کہ ملک کی کئی ریاستوں میں جگہ لے لی گئی ہے اور ڈیٹنشن سینٹرز بن رہے ہیں۔ کیا پورے ملک میں حراستی کیمپس بنیں گے جو پچھلی صدی کے کنسنٹریشن کیمپس کی یاد دلائیں گے جو یورپ میں ہوتے تھے، یہ نا انصافی ہوگی اس ملک میں۔ یہ ناانصافی ہے۔'
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس بل کا غلط استعمال مسلمانوں کے خلاف ہوگا کیونکہ امت شاہ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ پورے ملک میں این آر سی نافذ کریں گے اور اس رو سے دوسرے مذہب کے لوگوں کو تو پھر شہریت مل جائے گی لیکن مسلمانوں کو شہریت سے محروم کر دیا جائے گا۔