کابل: پروفیسرز کے بعد طالبان نے دس افغان فوجیوں کو بھی رہا کر دیا، امریکی صدر نے افغان طالبان سے دوبارہ مذاکرات کا اشارہ دے دیا۔ ساتھ ہی امریکی فوج واپس بلانے کا عزم بھی دہرایا۔
تاہم ترجمان طالبان کا کہنا ہے اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
پیر کو کامیابی کے ساتھ ایک امریکی اور ایک آسٹریلیائی پروفیسر کے بدلے امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کی قید سے چوٹی کے باغی قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی۔
مغوی مغربی پروفیسروں کی رہائی کو سراہتے ہوئے، منگل کے روز ٹرمپ نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ''توقع کرتے ہیں کہ اس کے بعد امن کے محاذ پر جنگ بندی جیسی مزید اچھی باتیں سامنے آئیں گی، جن کی مدد سے طویل عرصے کی یہ لڑائی ختم کی جائے گی''۔
کابل میں طالبان کے حملوں کے نتیجے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کا حوالہ دیتے ہوئے، ستمبر کے اوائل میں ٹرمپ نے اس سال سے جاری مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ٹرمپ نے جمعے کو اپنے اُس فیصلے کا دفاع کیا۔
ٹرمپ نے اس بات کی وضاحت کی کہ ''پچھلی بار جب مجھے توقع تھی کہ سمجھوتا ہونے والا ہے، پھر انھوں (طالبان) نے سوچا کہ شاید یہ بہتر ہو گا کہ ہم لوگوں کو ہلاک کریں، تاکہ ہم مضبوط موقف سے ساتھ بات چیت کر سکیں گے''۔
امن عمل میں امریکی مذاکرات کار، زلمے خلیل زاد نے جمعے کے روز کہا کہ انھیں امید ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں ''تشدد کی کارروائیوں میں کمی آئے گی اور پیش رفت میں تیزی آئے گی''، جس سے افغان حکومت، طالبان اور دیگر افغان رہنماؤں کی شمولیت سے سیاسی تصفیہ ممکن ہو گا۔
تاہم، طالبان ترجمان، سہیل شاہین نے اس ہفتے کے اوائل میں ان رپورٹوں کو غیر درست قرار دے کر مسترد کیا کہ قیدیوں کے کامیاب تبادلے کے بعد ان کے گروپ نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات میں براہ راست شریک ہونے سے اتفاق کیا ہے۔
طالبان کابل انتظامیہ کے ساتھ امن بات چیت کے سخت مخالف رہے ہیں، جسے وہ امریکہ کی کٹھ پلی قرار دیتے ہیں۔