Aaj Logo

شائع 19 نومبر 2019 03:49pm

'تمہیں راؤ انوار کے پاس لے جارہے ہیں وہ تمہیں سیدھا جنت بھیجے گا'

انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں نقیب اللہ و ساتھیوں کے قتل کیس کی سماعت ہوئی جہاں گواہ کے بیان پر جرح مکمل ہوئی اور سماعت 3 دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔

نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت میں ہوئی، سماعت کے موقع پر سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور ڈی ایس پی سمیت دیگر پیش  ہوئے جبکہ جیل حکام نے گرفتار ملزمان کو پیش کیا۔

عدالت میں گواہ کو پیش کیا گیا جہاں اس نے اپنے بیان میں کہا کہ سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکار 3 لڑکوں کو پکڑ کر لارہے تھے، ایک نقیب اللہ تھا جس کی تصاویر فیس بک پر دیکھی تھیں، باقی 2 لڑکے پٹھان تھے، جو پولیس والے پکڑ کر لے جارہے تھے۔

گواہ نے بتایا کہ ان میں سے میں چند کو پہچان لوں گا، عدالت نے گواہ کو ملزمان کی شناخت کا حکم دیا، عدالت ملزم علی اکبر اور ارشد علی کو شناخت کیا۔

گواہ نے کہا کہ صرف 2 پہچاننے میں آئے باقی کی شناخت نہیں کرپا رہا، جس پر ملزم کے وکیل نے گواہ سے جرح کیا، وکیل نے استفسار کیا کہ کب سے کام کررہے ہیں؟ گواہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ 2003 سے میں کراچی میں رہائش پذیر ہوں اور کام کررہا ہوں، میرا گھر اور دکان دونوں علی ٹاؤن میں ہے، میں گھر سے دکان جانے کے لئے سپر ہائی وے استعمال نہیں کرتا۔

گواہ نے مزید کہا کہ 3 اور 4 جنوری کا واقعہ میں نے پولیس کو بتایا تھا۔

عدالت میں دوسرے عینی شاہد کو پیش کیا گیا، گواہ کا کہنا تھا کہ 3 یا 4 تاریخ تھی جمعرات کا دن تھا، مجھے نقیب اللہ کا میسج آیا کہ ملاقات کرو، ہم سردار ہوٹل پر کھڑے تھے تو اس نے ہمیں شیرپاؤ ہوٹل پر بلایا، ہم نے ویٹر کو آرڈر کے لئے بلایا، تھوڑی ہی دیر میں کچھ سادہ لباس کپڑے والے اہلکار آئے (کچھ نے پینٹ شرٹ پہنی تھی اور کچھ نے شلوار قمیض) ہمیں پکڑ کر وہ سچل چوکی لے گئے۔

گواہ نے مزید کہا کہ ایک بندہ آیا اس نے پوچھا کیا کام کرتے ہو ہم نے بتایا، پھر ہم نے پولیس والوں سے پوچھا کہ کہاں لے جارہے ہو تو اس نے بولا ہم راؤ انوار کے پاس لے جارہے ہیں وہ تم کو سیدھا جنت بھیجے گا، جس کے بعد سچل چوکی سے ہمیں نامعلوم مقام پر لے گئے۔

گواہ نے بتایا کہ ہمارے پیروں میں بیڑیاں ڈالیں اور تالا لگایا، ہمیں کہا جب ہم جائیں تو پٹیاں کھول لینا۔ بعدازاں جب ہم نے پٹیاں کھولیں تو دیکھا کہ نقیب ہمارے ساتھ تھا، پھر ہم نے آپس میں پوچھا کہ ہم لوگوں کو یہاں کیوں لائے تو نقیب نے بتایا مجھے بہت مارا اور 10 لاکھ روپے مانگے، مجھے چھوٹے سے کمرے میں رکھا تھا۔

گواہ نے مزید بتایا کہ ایک بندہ رات کو آیا، اس نے ہم سے پتا وغیرہ پوچھا، پھر کچھ دیر بعد ایک اور بندہ آیا اور وہ مجھے باہر لے گیا، میرے پیر کھول دیئے اور پیچھے ہاتھ باندھ دیئے، پھر مجھے ٹیبل پر لٹا کر باندھا اور ناک میں نسوار کا پانی ڈالا۔ یہ کام 6 سے 7 مرتبہ کیا، اس کے بعد قاسم کو باہر لے گئے، قاسم کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔

گواہ کا کہنا تھا کہ اس کے بعد پھر ہمیں بٹھا کر پوچھا کام کیا کرتے ہو۔ پوچھ گچھ کے بعد پھر اسی کمرے میں بند کردیا، دوسرے دن ہمیں سچل چوکی لایا گیا اور لاک اپ میں بٹھا دیا۔ ایک شخص نے جو سامان ہم سے لیا تھا وہ واپس دیا اور اس نے کہا کہ اس کا ذکر کسی سے مت کرنا ورنہ جان سے جاؤگے۔

گواہ نے مزید کہا کہ 17 تاریخ کو سوشل میڈیا کے ذریعے پتا چلا کہ نقیب اللہ کو راؤ انوار کی ٹیم نے شہید کردیا، ہم نے سوشل میڈیا پر راؤ انوار کی پریس کانفرنس دیکھی۔ پریس کانفرنس میں جو آواز سنی اور وہاں جو آواز ہم نے سنی تھی وہ راؤ انوار کی تھی۔

گواہ نے بتایا کہ عابد قائمخانی ہمیں وہاں لے کر گئے جہاں سے اٹھایا تھا، 26 فروری 2018 کو میں نے مجسٹریٹ کو بیان دیا۔ میں نے عدالت کے حکم پر غلام نازک، شکیل احمد کو شناخت کیا۔

عینی شاہد سے ملزم کے وکیل نے جرح کی، انہوں نے استفسار کیا کہ آپ نے جو پتا لکھوایا اس پر مستقل رہتے ہیں، تو عینی شاہد نے جواب دیا کہ نہیں تبدیل کرتے رہتے ہیں لیکن فیملی کے ساتھ اسی علاقے میں رہتے ہیں۔

ملزم کے وکیل کی جرح مکمل ہونے پر عدالت نے سماعت تین دسمبر تک ملتوی کردی جبکہ عدالت میں نقیب االہ کے والد نے ایک درخواست دائر کی ہے۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ طبیعت ناسازی کے باعث پیش نہیں ہوسکتا میرا بیان ویڈیو لنک کے زریعے ریکارڈ کیا جائے، درخواست پر عدالت نے ملزمان اور سرکاری وکیل کو نوٹس جاری کردیئے۔

Read Comments