کابل: سول سوسائٹی کی ایک آرگنائزیشن نے افغانستان میں بچوں سے زیادتی کرنے والے گروہ کا پتہ لگایا ہے جو 6 اسکولوں کے 546 لڑکوں سے زیادتی میں ملوث ہے۔
غیر ملکی اخبار دی گارجئین کے مطابق زیادتی کے شکار کم از کم 7 افغان بچوں کو سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ویڈیوز میں چہرے نظر آنے کے بعد ان کے خاندان کی جانب سے قتل کردیا گیا۔
دی لوگر یوتھ، سوشل اینڈ سول نامی آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ وہ خطے کے دیگر اسکولوں میں بھی تحقیقات کررہے ہیں، انہیں خدشہ ہے کہ زیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں کی تعداد ہزاروں میں ہوسکتی ہے۔
دی گارجئین سے گفتگو کرتے ہوئے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن موسیٰ نے کہا کہ اس میں اساتذہ اور مقامی حکام بچوں سے زیادتی میں ملوث ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ایک 17 سالہ طالب علم نے اپنے والدین کو اس حوالے سے بتایا تو انہیں یقین نہیں آیا، جس کے بعد اس نے ثبوت کے طور پر اپنے موبائل فون میں ہیڈ ٹیچر کی ویڈیو بنائی۔
طالب علم نے مزید کہا کہ اس (ہیڈ ٹیچر) نے مجھے کہا کہ میں تم سے پیار کرتا ہوں۔ لڑکے نے بتایا کہ ہیڈ ٹیچر کو اسکول سے نکال دیا گیا تاہم اب وہ وزارت تعلیم میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔
ایک اور اسکول سے تعلق رکھنے والے 18 سالہ طالب علم نے گارجئین کو بتایا کہ ٹیچر نے مجھے امتحانات میں فیل کردیا جبکہ پاس کرنے کے لیے مجھ سے نامناسب مطالبات کئے، اب تک اس اسکول میں بچوں سے زیادتی کے 66 واقعات کی تصدیق ہوچکی ہے۔
داؤد نے مزید کہا کہ ٹیچر نے مجھے کہا کہ تمہیں پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں، میں تمہیں ویسے ہی پاس کردوں گا۔