چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس میں گرما گرم بحث ہوئی۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ عدل کا نظام مفلوج ہوکر رہ گیا۔ لوگ سانپ، بچھو سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا عدالتوں سے ڈرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حافظ حمد اللہ کا شناختی کارڈ منسوخ کرکے افغانی بنادیا گیا لیکن نادرا نے معافی نہیں مانگی۔ پوچھا جائے یہ غلطی سے ہوا یا کسی کے کہنے پر کیا گیا؟ مہاتیر محمد نے کہا تھا کہ انڈے، مرغی اور کٹے سے ترقی نہیں آتی، کارخانے لگائے جائیں۔ ملک میں کارخانے تو لگے لیکن صدر کے آرڈیننس کے۔
بی این پی کے سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ سابق صدر اور وزیراعظم کی جان کو خطرہ ہے۔ عمران خان کو چاہیئے کہ وہ انکے پاس جائیں اور اپنے جہاز میں علاج کے لئے باہر بھیجیں۔
سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ قومی اسمبلی میں آرڈیننس گردی ہو رہی ہے۔
سسی پلیجو نے آصف زرداری کو فوری رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔
سینیٹر میر کبیر شاہی نے کہا کہ وزیراعظم نے کہا تھا کہ اگر 25 ہزار بندے مارچ میں آئے تو استعفیٰ دے دوں گا۔ آج ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ مارچ میں موجود ہیں۔ ہیلی کاپٹر میں جاکر دیکھیں۔ ہیلی کاپٹر ویسے بھی 50 روپے فی گھنٹہ کے حساب سے چلتا ہے۔
حکومتی سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ اگر کسی کو کرپشن میں بھی گرفتار کیا جائے تو وہ پارلیمنٹ اور جمہوریت کا سہارا لیتے ہیں۔ اپوزیشن میں موجود لبرل لوگ مولانا کے پیچھے کھڑے ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ بھٹو اور بینظیر کا نام لینا چھوڑ دیں اور مولانا کے ہاتھ پر بیعت کرلیں۔
شبلی فراز کے الفاظ پر پیپلز پارٹی نے احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کیا تو دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔
قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے شبلی فراز سے معافی کا مطالبہ کیا تو انھوں نے انکار کردیا۔
کورم مکمل نہ ہونے پر سینیٹ اجلاس پیر کی سہہ پہر ساڑھے تین بجے تک ملتوی کردیا گیا۔