سینیئر صحافی سلیم صافی کا آج نیوز کے پروگرام 'فیصلہ آپ کا' میں کہنا ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ پریشان عمران خان خود ہیں، انہیں پتا ہے کہ میرے بارے میں مذاکرات کہیں اور ہوں گے، میرے بارے میں اگر کوئی ڈیل ہوگی تو وہ بھی کہیں اور ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات کے عمل میں عمران خان فریق نہیں بلکہ صرف ایک کردار ہیں۔
سینیر صحافی نے یہ بھی کہا کہ مولانا فضل الرحمان کا بیٹھنے اور استعفے پر اسرار مجھے سمجھ نہیں آرہا، میرے خیال میں انہوں نے اب تک بہت کچھ حاصل کرلیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر مولانا آگے جاکر ناکام ہوگئے تو جو کچھ حاصل کیا ہے اتنا ہی نقصان بھی ہوسکتا ہے، مولانا اگر چاہیں تو وہ لمبے عرصے تک بیٹھ سکتے ہیں۔
سینیئر صحافی کا مزید کہنا ہے کہ جو لوگ مولانا کی تنظیم کی صلاحیت اور امیر وغیرہ کے تصور سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ مولانا کیا کرسکتے ہیں۔
سلیم صافی نے یہ بھی کہا کہ میں چیلنج سے کہتا ہوں مولانا نے اب تک پورے پاکستان سے اپنے کسی ایک مدرسے کی چھٹی نہیں کی ہے، مدرسوں کا آپشن ان کے پاس اب تک موجود ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک، مولانا اور حکمرانوں کے لئے اب سب سے زیادہ خطرناک 'مذہبی کارڈ کا استعمال' (جو اب تک مولانا نے نہیں کیا ہے) بن جائے گا۔
سینیئر صحافی نے یہ بھی کہا کہ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، اے این پی اور دیگر نامور سیاسی جماعتوں نے انہیں دھوکا دیا ہے اور یہ جتنی مزید ان سے دور ہوتی جائیں گی تو مولانا کا 'مذہبی کارڈ' کا استعمال اسی تناسب سے بڑھتا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مولانا اس وقت صرف سیاسی مطالبات کے ساتھ وہاں موجود ہیں مگر انہوں نے اپنے ورکر کو 'مذہبی کارڈ' پر اُکسایا ہے، اگر مولانا کے ساتھ سختی کی گئی تو وہ پوری قوت کے ساتھ مذہبی کارڈ کا استعمال کریں۔
سلیم صافی نے یہ بھی کہا کہ نام نہاد رہبر کمیٹی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، یہ صرف وقت کا ضیاع ہے۔
معروف اینکر پرسن وسیم بادامی نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس جو تھوڑا بہت مینڈیٹ ہے وہ وزیراعظم پاکستان کے پاس ہی ہے۔ اس موقع پر سلیم صافی نے سوال کیا 'سچ مُچ؟' تو وسیم بادامی بولے جو تھوڑا بہت ہے میں اُس کی بات کررہا ہوں۔
وسیم بادامی نے مزید کہا کہ رہبر کمیٹی کی اس تناظر میں تو کوئی حیثیت نہیں جس میں سلیم صافی صاحب نے کہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر مولانا کو کسی وقت محفوظ راستہ کی ضرورت پڑی تو وہ رہبر کمیٹی کا ہی کندھا ہوگا جس پر رکھ کر وہ اپنی بندوق چلائیں گے۔
سلیم صافی نے مزید کہا کہ عمران خان یوٹرن لینے کو جتنا اعزاز سمجھتے ہیں ہم اُسے اتنا ہی شرمناک سمجھتے ہیں، 2014 میں جب نواز شریف سے استعفیٰ مانگا جارہا تھا تو ہم سب نے اس کی مخالفت کی تھی اور آج بھی ہم یہی کہتے ہیں کہ عمران خان ہوں یا کوئی اور۔۔۔ کسی سے اس طرح استعفیٰ نہیں لینا چاہیئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مولانا کا دھرنا یہاں تک جائز ہے جہاں تک حکومت نے انہیں اجازت دی ہے، اگر وہ اس سے ایک قدم آگے گئے اور قتل و غارت ہوا تو یہ ناجائز ہوگا۔
سینیئر صحافی نے مزید کہا کہ ماضی میں بھی کسی نے اپنی مرضی سے استعفیٰ نہیں دیا ہے 'استعفے لئے نہیں جاتے بلکہ استعفے لئے جاتے ہیں'۔ عمران خان اُس راستے سے اقتدار میں آئے ہیں جس راستے سے جمالی اور شوکت عزیز آئے تھے اور جائیں گے بھی اسی راستے سے جس راستے سے وہ گئے تھے۔
ایک اور سینیئر صحافی سلیم بخاری نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے اگر اپنی ضد برقرار رکھی اور وزیروں کا رویہ ٹھیک نہ ہوا تو یہ صورتحال گھمبیر سے گھمبیر تر ہوسکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم ہر چیز، ہر اعلان اور ہر وعدے پر یو ٹرن لے چکے ہیں، ان کے یوٹرنز کی نصف سینچری تو کافی پہلے ہوگئی تھی اور اب سینچری بھی ہونے والی ہے۔ وہ اس چیز پر ایسے فخر کرتے ہیں کہ جیسے کوئی اعزاز کی بات ہو۔
وسیم بادامی نے کہا کہ مجھے موجودہ حالات میں نہیں لگتا کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں گے۔ لیکن اس کے برعکس سلیم بخاری نے کہا کہ عمران خان اتنے یوٹرنز لے چکے ہیں کہ اب اگر دباؤ آیا تو وہ اپنی بات سے یوٹرن لے کر استعفیٰ بھی دے دیں گے۔