Aaj News

ہفتہ, ستمبر 28, 2024  
23 Rabi ul Awal 1446  

ڈاکٹر شاہ نواز کے قتل کا مقدمہ پولیس افسران، مولوی عمر سرہندی کے خلاف درج

وزیرِاعلیٰ کی ہدایت پر ترتیب دی جانے والی انکوائری رپورٹ نے ملزمان کا تعین کردیا تھا
اپ ڈیٹ 27 ستمبر 2024 11:52pm

عمر کوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شاہ نواز کو جعلی مقابلے میں قتل کرنے کا مقدمہ ڈی آئی جی جاوید جسکانی، ایس ایس پی چودھری اسد، ایس ایس پی آصف رضا اور مولوی عمر جان سرہندی کے خلاف درج کرلیا گیا۔

سندھڑی، ضلع میرپور خاص کے پولیس اسٹیشن میں یہ مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار کا کہنا ہے کہ عمر کوٹ میں توہین مذہب کے ملزم ڈاکٹر شاہ نواز کنبھار کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا۔ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ عمرکوٹ میں پولیس اہلکاروں پر جعلی مقابلے کا الزام تھا، انکوائری میں الزام درست ثابت ہونے پر اہلکاروں کو معطل کردیا گیا۔

ضیاء لنجار نے بتایا کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ہدایت پر ڈاکٹر شاہ نواز کے قتل سے متعلق انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ انکوائری کے دوران سی سی ٹی وی فوٹیج سے بھی مدد لی گئی۔ تحقیقات مکمل کرکے وزیرِاعلیٰ سندھ کو 31 صفحات کی رپورٹ پیش کی گئی۔

اس سے قبل سندھڑی تھانے میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہ نواز کنبھار کے وکلا کی دس رکنی ٹیم نے مقدمہ درج کرنے کی درخواست جمع کرائی تھی۔ اس موقع پر بیرسٹر اسداللہ شاہ راشدی کی قیادت میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے وکلا موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ شاہ نواز کو تحویل میں لے کر قتل کیا گیا۔ 2022 میں قانون منظور ہوا تھا کہ جوڈیشل کسٹڈی میں مارنے کی انکوائری ایف آئی اے کرتی ہے۔

مقدمہ درج کرنے کی درخواست میں ڈی آئی جی جاوید جسکانی، ایس ایس پی اسد چوہدری، ایس ایس پی آصف رضا بلوچ، عمر جان سرہندی، ڈی آئی بی انچارج دانش بھٹی، سب انسپکٹر ہدایت اللہ ناریج دیگر پولیس اہلکاروں کو نامزد کیا گیا۔ قبر کشائی کے بعد ہی صورتِ حال واضح ہوسکتی ہے۔

خیال رہے کہ 20 ستمبر 2024 کو سندھ کے علاقے عمر کوٹ میں پولیس نے توہین مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے ایک ڈاکٹر کو مبینہ پولیس مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ ایک ہفتے کے دوران ماورائے عدالت ہلاکت کا دوسرا واقعہ تھا جس کی انسانی حقوق کے گروپوں نے شدید مذمت کی تھی۔

مقامی پولیس کے سربراہ نیاز کھوسو نے بتایا تھا کہ بدھ کی رات پولیس افسران نے موٹر سائیکل پر سوار دو افراد کو رکنے کا اشارہ کیا تو انہوں نے رکنے کے بجائے پولیس پر فائرنگ کی اور فرار ہونے کی کوشش کی، جس کے بعد پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے شاہ نواز کو موقع پر ہلاک کردیا۔ دوسرا ملزم فرار ہوگیا تھا۔

نیاز کھوسو نے دعویٰ کیا تھا کہ فائرنگ کے تبادلے کے بعد ہی افسران کو معلوم ہوا کہ مقتول وہ ڈاکٹر تھا جسے مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام میں ڈھونڈا جا رہا تھا۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں مقامی علما کو پولیس پر گلاب کی پتیاں نچھاور کرتے اور توہین رسالت کے ملزم کو ہلاک کرنے پر افسران کی تعریف کرتے ہوئے دکھایا گیا۔

دوسری جانب مقامی افراد نے مقتول کی تدفین بھی نہیں ہونے دی اور اس کی لاش کو آگ لگادی گئی۔ بعدازاں اہل خانہ نے بیابان میں مقتول کی تدفین کی۔ بعد میں ضیاء لنجار کا کہنا تھا کہ انکوائری میں ثابت ہوا یہ پولیس مقابلہ نہیں تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایس ایس پی میرپور خاص کو معطل کردیا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی ججمنٹ ہے کہ ایک واقعے کا ایک ہی مقدمہ ہوگا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ اس میں یقیناً ڈی آئی جی ملوث ہیں۔ میری ذمہ داری ہے کہ پولیس کا مورال عوام کی نظر میں بہتر ہو۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق عمر کوٹ پولیس نے 18 گریڈ کے ڈاکٹر شاہ نواز کو کراچی سے گرفتار کرکے میرپور خاص پولیس کے حوالے کیا گیا۔ میرپور خاص پولیس نے ڈاکٹر شاہ نواز کو قتل کیا اور اسے مقابلہ کا رنگ دینے کی کوشش کی۔

DR SHAH NAWAZ

FAKE ENCOUNTER

POLICE OFFICERS AND CLERIC BOOKED

ENQUIRY REPORT