Aaj News

ہفتہ, نومبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Awwal 1446  

الریاض بریج: جہاں منٹوں کی مسافت گھنٹوں میں تبدیل ہوجاتی ہے

اپ ڈیٹ 16 دسمبر 2019 05:22am

ریاض: سعودی عرب کے دارالحکومت میں وادی لبن میں قائم الریاض بریج تعمیر کرنے والوں کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس پل پر سفر کرنے والوں کی منٹوں کی مسافت گھنٹوں میں تبدیل ہوجائے گی۔

یہ پل بین الاقوامی ماہر تعمیرات سیشادری سرینفویسن نے ڈیزائن کیا اور 6 سال کی دن رات کوشش سے اس کی تعمیر 2000ء میں مکمل کی گئی تھی۔ اس پل پر ٹریفک کا حجم توقع سے زیادہ ہونے سے یہاں ٹریفک کا غیرمعمولی رش لگ جاتا ہے۔

خبر رساں ادارے العریبیہ کے مطابق گوگل میپ پر دی گئی تفصیلات سے پتا چلتا ہے الریاض بریج پر دونوں طرف آمد ورفت 25 منٹ میں مکمل ہوسکتی ہے۔ تاہم اگر کوئی حادثہ پیش آئے یا کسی گاڑی میں کوئی خرابی پیدا ہو تو آمد روفت کا دورانیہ بڑھ سکتا ہے۔ تاہم یہاں پر ٹریفک کسی حادثے کی وجہ سے تاخیر کا شکار نہیں ہوتی بلکہ غیرمعمولی رش کی وجہ سے یہاں گاڑیاں پھنس جاتی ہیں۔ الریاض بریج کو دنیا کے بڑے پلوں میں سے ایک ہے۔

گذشتہ اپریل میں الریاض بلدیہ کی انتظامیہ نے الریاض بریج پر ٹریفک کے اژدھام کے حل پرغورکیا اور اس حوالے سے متعدد سفارشات بھی جاری کی گئیں۔ ان سفارشات میں وزارت ٹرانسپورٹ کی طرف سے کہا گیا تھا کہ شمالی سمت کے بیرونی ٹریک نمبر 28 اور جنوب میں 33 اور 34 ٹریک پر ٹریفک کے رش کو کم کرنے کے لیے رہ نمائی پرمبنی بورڈ آویزاں کرے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ وزارت ٹرانسپورٹ نے ٹریک 33 اور 34 کے جد کی طرف نکلنے والے راستے کے ساتھ سروس ٹریک کھولنے پر بھی غور کیا گیا۔ جدہ کی طرف جانے والی کاروں کا راستہ تبدیل کرنے کی بھی تجویز پیش کی گئی۔

الریاض سیکرٹریٹ نے نجم الدین روڈ پرکام کرنے کی تجویز پیش کی اور الریاض بریک کے متبادل راستوں پر ٹریفک چلانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

خیال رہے کہ مذکورہ بریج شہر کے جنوب مغربی حصے میں وادی لبن میں واقع ہے۔ اس کا شمار دنیا کے بڑے اونچے پلوں میں ہوتا ہے۔ یہ شہر کو ٹریفک کے ذریعے مختلف شہروں سے ملانے کی سہولت کے ساتھ شہر میں جدید فن تعمیر کا ایک شاہ کار بھی ہے۔

اس پل کی لمبائی 763 میٹر اور چوڑائی 35 میٹر ہے۔ اس کے دو بلند ٹرین ستون ہیں۔ شمالی ستون کی اونچائی 72 اعشاریہ پانچ میٹر اور جنوبی ٹاور کی 80 اعشاریہ 5 میٹر ہے۔ پل کے درمیان میں مرکزی ستونوں کی لمبائی 90 میٹر ہے۔ یہ پل ریکارڈ کم وقت میں یعنی صرف سال اور چھ ماہ میں مکمل کیا گیا۔ اس کی تعمیر میں 300 ماہر تعمیرات نے حصہ لیا۔