سمندر کے اندر اسپیکر لگانے کا دلچسپ تجربہ، اس سے فائدہ کیا ہوگا؟
سڈنی: آسٹریلیا کے قریب سمندر کی گہرائی میں موجود مونگے اور مرجانی چٹانوں پر ایک دلچسپ تجربے کے لیے لاؤڈ اسپیکر نصب کرکے خاص آوازیں خارج کی گئی ہیں۔ توقع ہے کہ اس طرح نوجوان مچھلیاں اور آبی حیات وہاں آئیں گی اور کورال دوبارہ جی اٹھیں گے۔
ہم جانتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی سے سمندر میں میلوں پھیلی ہوئی مونگے اور مرجانی چٹانیں تباہ اور بیمار ہورہی ہیں۔ یہ زندہ اجسام تصور کی جاتی ہیں اور انہیں آبی حیات کی نرسری کہا جاتا ہے کیونکہ یہ کئی جانداروں کا گھر ہے اور وہ یہاں ہنسی خوشی رہتے ہیں۔ لیکن ہماری ساری ترقی کے باوجود ان کی بحالی ایک مشکل کام بن چکا ہے۔
سی این این کے مطابق برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایکسیٹر کے سائنس دانوں سمیت بین الاقوامی ماہرین کی ٹیم نے گریٹ بیریئر ریف کے اندر لاؤڈ اسپیکر لگائے ہیں جو صحت مند کورل کی مخصوص آواز خارج کرتے ہیں۔ یہ آوازیں انہوں نے دنیا بھر کے صحت مند مونگوں اور مرجانی چٹانوں سے ریکارڈ کی ہیں۔ ایکسیٹر یونیورسٹی کے سائنس دان ٹِم گورڈن نے بتایا کہ مچھلیاں مونگوں کو صحت مند بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن کورل سے آواز نہ آئے تو وہ اسے مردہ سمجھ کر دور چلی جاتی ہیں، اس لیے بیمار اور تباہ حال مرجانی چٹانوں پر لاؤڈ اسپیکر سے آوازیں خارج کرکے نوجوان مچھلیوں کو اس کی جانب راغب کیا گیا ہے، مچھلیاں بڑھنے سے ازخود کورل کا نظام مؤثر ہوجاتا ہے۔
رنگا رنگ آبی حیات اور مچھلیوں کی وجہ سے صحت مند کورل سے خاص آوازیں آتی رہتی ہیں جو مچھلیوں کو لبھاتی ہیں کہ وہ بھی یہاں آکر اپنی نسل بڑھائیں۔ اس طرح خود مرجانی چٹانوں کی صحت برقرار رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جاندار خود یہاں صفائی کا کام کرتے ہیں اور اس کے مردے حصوں کو نکال باہر کرتے ہیں۔ اکتوبر سے دسمبر 2017ء تک سائنس دانوں نے ایک مردہ کورل پر لاؤڈ اسپیکر لگائے تو اس 40 روزہ تجربے میں نوجوان مچھلیاں یہاں راغب ہوئیں اور کچھ نے رہائش بھی اختیار کرلی۔
اس طرح اسپیکر نہ لگائے جانے والے کورل کے مقابلے میں 50 فیصد سمندری حیات نے اسپیکر کی آواز کا رخ کیا۔ اب اگلے تجربے میں یہ دیکھنا باقی ہے کہ مچھلیاں اور دیگر جاندار کب تک وہاں برقرار رہتے ہیں، کیونکہ وقتی کامیابی کو حتمی نتیجہ نہیں سمجھا جاسکتا تاہم بین الاقوامی ماہرین نے اس کاوش کو بہت سراہا ہے جس کی بدولت کرہ ارض کے متاثرہ کورل کو بحال کیا جاسکتا ہے۔
Comments are closed on this story.