سعودی عرب کے بیچوں بیچ میٹھے پانی کا قدیم ترین چشمہ
سعودی عرب کے بیچوں بیچ ایک میٹھے پانی کے چشمے کا پتا چلا ہے جو تاریخ کے قدیم ترین چشموں میں سے ایک ہے۔
سعودی عرب کے تاریخی مقامات کی تصاویر جمع کرنے کے شوقین فوٹو گرافر عبدالالہ الفارس نے اپنی تصاویر میں مملکت کے وسط میں میٹھے پانی کے ایک قدیم ترین چشمے کا سراغ لگایا ہے۔
پانی کا یہ چشمہ نہ صرف سعودی عرب بلکہ 'جزیرۃ العرب' کا قدیم ترین چشمہ تصور کیا جاتا ہے۔ "خفس" نامی یہ چشمہ میٹھے پانی کا پرانا چشمہ ہے۔
یہ چشمہ مصنوعی نہیں بلکہ یہاں سے قدرتی طور پر پانی پھوٹ کر باہر نکلتا اور نہ صرف آس پاس کے کھیتوں کھلیانوں کو سیراب کرتا ہے بلکہ وہاں سے گذرنے والے مسافروں، راہ گیروں اور عام شہریوں اور ان کی مویشیوں کی پیاس بھی بجھاتا ہے۔
خفس یا دغرہ کے نام سے مشہور پانی کا یہ چشمہ سعودی عرب کی وسطی گورنری الدلم میں اس بستی کی نسبت سے مشہور ہے۔ اس چشمے کے اطراف میں کئی تاریخی مقامات اور آثار قدیمہ کی علامات موجود ہیں۔
سعودی عرب کے دارالحکومت الریاض کے جنوب میں یہ مقام 120 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔
سیاحتی گائیڈ ولید العبیدی نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے پانی کے اس عظیم الشان چشمے کے بارے میں باتے میں بتایا کہ خفس دغرہ کے اطراف میں کھیتوں اور زرعی فارم ہاؤسز کا قیام شاہ عبدالعزیز آل سعود کے دور میں کیا گیا۔
سنہ 1939ء میں شاہ عبدالعزیز کے حکم سے الدلم کے مقام پر موجود پانی کے چشمے کے اطرف میں زرعی مقاصد کے لیے کئی فارم قائم کیے گئے۔
ایک سوال کے جواب میں الدلم کا کہنا تھا کہ خفس قدرتی زمین کے اندر الدلم پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مقام قدرتی پانی کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ اگرچہ اس جگہ کے اطراف میں کئی بار لوگوں نے عارضی طور پر قیام کیا۔
سنہ 1358ھ خفس چشمے کے پانی کو آس پاس کی آبادیوں نے پینے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔
اس چشمے کے قریب پرانے زمانے کا قبرستان بھی موجود ہے جبکہ پتھر کے دور کی باقیات بھی ملی ہیں۔ قریب موجود پہاڑوں اور چٹانوں پر زمانہ قدیم کی نقش ونگاری بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔
دغرہ کے شمال میں 15 کلومیٹر کی مسافت پرایک قدیم بستی کے آثار ملتے ہیں۔
Comments are closed on this story.