گولڈن بلڈ: جو صرف دنیا کے 43 افراد میں پایا جاتا ہے
انسان کی رگوں میں دوڑنے والے خون کی پانچ اقسام اے، بی، او، اے بی نگیٹیو، پازیٹیو، بلڈ گروپ کے بارے میں سب نے پڑھا اور سنا ہوگا، لیکن ایک اور بلڈ گروپ بھی انسانی جسم میں پایا جاتا ہے جس کے بارے میں طبی ماہرین اور ریسرچ کرنے والوں کےعلاوہ شاید ہی کوئی جانتا ہو۔
رپورٹ کے مطابق "گولڈن بلڈ" نامی اس گروپ کو سب سے زیادہ نایاب مانا جاتا ہے۔ اس بیش قیمتی بلڈ گروپ کی اپنی خاص اہمیت تو ہے، لیکن کئی بار نایاب ہونے کی وجہ سے یہ جان لیوا بھی ثابت ہوجاتا ہے۔
گولڈن بلڈ کا اصل نام "آرایچ نل" ہے۔ سب سے انوکھا ہونے کی وجہ سے طبی سائنس دانوں نے اسے گولڈن بلڈ کا نام دیاہے۔
گولڈن بلڈ کا پہلا مریض 1961 میں سامنے آیا۔ یہ بلڈ گروپ ایک آسٹریلین خاتون میں پایا گیا تھا۔
نایاب ترین خون کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ بلڈ گروپ کیسے وجود میں آتے ہیں۔ خون "آر بی سی ایس" یعنی خون کے سرخ خلیات سے مل کر بنتا ہے۔ ان پر پروٹین کی ایک پرت ہوتی ہے، جسے اینٹیجن کے نام سے جانتے ہیں۔
ہر بلڈ گروپ میں اسی نام کا اینٹیجن ہوتا ہے۔ ہر شخص کا بلڈ گروپ اسی اینٹیجن کی بنیاد پر پہچانا جاتا ہے۔
گولڈن بلڈ گروپ میں شامل افراد کے خون میں اینٹیجن نہیں ہوتے ہیں، جو تقریباً 99 فیصد لوگوں میں ہوتے ہیں۔
گزشتہ 50 برسوں میں اب تک دنیا میں ایسے 43 افراد ہی دریافت ہوئے ہیں جن کا بلڈ گروپ "گولڈن بلڈ" کہلاتا ہے۔
ایک جانب تو یہ مٹھی بھر لوگوں میں خون کا گروہ ہے تو دوسری جانب سائنسی تحقیق کے لیے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس کا مطالعہ خون کے پیچیدہ نظام کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
Comments are closed on this story.